کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 105
ہیں ،کہ میں تمہیں کہوں، پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے، لیکن جب وہ سچائی کی روح آئے گی، تو وہ ساری سچائی کی بات بتلائے گی، اس لیے کہ وہ اپنی نہ کہے گی، لیکن جو کچھ وہ سنے، سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبر دے گا، وہ میری بزرگی کرے گی، اس لیے کہ وہ میری چیزوں سے پائے گی اور تمہیں دکھائے گی۔‘‘[1] مذکورہ بالا آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس آنے والے پیغمبرJ کی بشارت بار بار دی ہے، اس کولفظ [فارقلیط] سے تعبیر کیا ہے، یہ لفظ عبرانی یا سریانی ہے، جس کے لفظی معنی ٹھیک محمد اور احمد کے ہیں۔ عیسائیوں نے [فارقلیط] کے لفظ سے اسلام کی تصدیق ہوتی دیکھ کر اس کی بجائے [تسلی دینے والا] کی تعبیر استعمال کی ہے۔ لیکن اس تبدیلی سے بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا، کیونکہ مخلوق میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر [تسلی دینے والا] کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی گناہوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو رب العالمین کا یہ پیغام پہنچایا: {یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ}[2] [اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہوجاؤ۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب کے سب گناہ بخش دیتے ہیں۔ بلاشبہ وہی تو بے حد بخشنے والے اور نہایت رحم کرنے والے ہیں]۔
[1] باب ۱۶، آیت ۷۔ منقول از سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۳/۴۳۳۔۴۳۴۔ [2] سورۃ الزمر / جزء من الآیۃ ۵۳۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر ثنائی ص ۷۹۲۔