کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 102
و: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچایا، کہ وہ تشریف لانے والے نبی کی اطاعت کریں، اور ان کی بات نہ سننے والوں کو اللہ تعالیٰ کے انتقام لینے کی وعید سنائی۔ تورات ہی سے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقیت اور عالمگیریت کی روزِ روشن کی طرح واضح دلیل ہے۔ اس میں ایک طرف اہل کتاب کے لیے تنبیہ ہے، کہ وہ اپنے آپ کو عذاب الٰہی سے بچانے کے لیے خاتم النّبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور ان کی اطاعت و اتباع کو اپنا دستورِ زندگی بنائیں اور دوسری جانب امتِ اسلامیہ کے لیے یاد دہانی ہے، کہ وہ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو پہچانیں اور ان کے پیغامِ رسالت کو اہل کتاب تک پہنچائیں، شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو اہل کتاب یا ان کے کچھ لوگوں کی ہدایت کا سبب بنا دیں۔ وما ذلک علی اللّٰه بعزیز۔[1] ۲: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بنی اسرائیل کو آخری وصیت یہ تھی: ’’یہ وہ برکت ہے، جو موسیٰ۔ علیہ السلام ۔ مرد خدا نے اپنے مرنے سے پہلے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا، کہ خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار مقدَّسوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی، ہاں وہ اپنے لوگوں سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدَّس (ہمراہی) تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے پاس
[1] اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ مذکورہ بالا بشارت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہونے کے حوالے سے متعدد دیگر باتیں طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کی گئی۔ مولانا کیرانوی نے دس وجوہات ذکر کی ہیں اور اس کے متعلق عیسائیوں کے دو اعتراضوں کا جواب بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: اظہار الحق ۲/۳۶۲۔۳۷۵۔)