کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 100
گوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوتی ہے، کسی اور پر نہیں۔[1] عیسائیوں نے اس بشارت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ اس کے مصداق نہیں ہوسکتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نہ تھے، بلکہ شریعت موسیٰ کے پیرو تھے، وہ جنگ جو اور مجاہدنہ تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ظاہری و معنوی دونوں اعتبار سے بادشاہ تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تھے۔[2] ج: اس پیشین گوئی میں بیان کیا گیا ہے: ’’یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا……… تاکہ میں مر نہ جاؤں۔‘‘[3] اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے، جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ احکامِ شریعت دئیے گئے تھے، اور بنی اسرائیل کی درخواست کے مطابق ہونے سے مراد یہ ہے، کہ آئندہ شریعت دیتے وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہیں کئے جائیں گے، جو حورب پہاڑ کے دامن میں پیدا کئے گئے تھے، بلکہ اب جس نبی کی بشارت دی جارہی ہے، بس اس کے منہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام ڈال دیا جائے گا اور وہ اس کو لوگوں کو سنائے گا۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے، کہ اس پیش گوئی کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی مصداق نہیں؟[4] د: اس پیشین گوئی میں تشریف لانے والے نبی کے متعلق بیان کیا گیا: ’’اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ ان سے کہے گا۔‘‘
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ثنائی ص ۷۸۹۔ [2] ملاحظہ ہو: سیرۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ۳/۴۵۰۔۴۵۱۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان بیس مشترک باتیں ذکر کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: اظہار الحق ۲/۳۶۸۔)؛ علاوہ ازیں شیخ رحمہ اللہ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے درمیان مفارقت کی متعدد وجوہ بھی ذکر کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۳۶۳۔۳۶۴)۔ [3] مکمل عبارت ص۹۸ میں گزر چکی ہے۔ [4] ملاحظہ ہو: یہودیت و نصرانیت ص ۴۵۲۔۴۵۳۔