کتاب: چہرے اور ہاتھوں کا پردہ - صفحہ 12
پیروکار ہیں۔ امابعد:مغربی معاشرہ ایک کینسر زدہ معاشرہ ہے، جس کے اخلاقیات اور سلوکیات کا دیوالیہ پن ہرطرح کے تعفن میں لپٹاہواہے،جس شخص کی قوت شامہ ذرا سابھی کام کرتی ہووہ اس بدبودار معاشرہ کی سڑاند محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ افسوس! ایک مٹھی بھرجماعت جسے مغربی سازش اور پلاننگ نے بظاہر اسلام کا لبادہ اُوڑھارکھاہے ،اس بدبودار تالاب میں اپنا پورامنہ داخل کرکے،اس کی گندگی سے سیراب ہونے کی کوشش میں مصروف ہے،جن کی یہ بھی خواہش ہے کہ اس ناپاک اور مسموم جوہڑ سے شروفساد کے کچھ ندی نالے،اسلام کے صاف ستھرے معاشرہ کی طرف چھوڑ دیئے جائیں،اوریہ معرکہ آرائی بالآخر،طہارت ونظافت کے مرکز، بلادِ حرمین شریفین (اللہ تعالیٰ اسے ہرشر سے محفوظ رکھے )تک جاپہنچے۔ ناپاک عزائم کے حاملین یہ لوگ، جو مغربی ثقافت سے پوری طرح شکم سیر ہوچکے تھے، اور ان کے کلچر کی تقلیدکی رومیں پوری طرح بہہ چکے تھے ،بلادِ اسلامیہ میں ایسے نفوس لیکرلوٹے جوشروخباثت سے لبریز ہوچکے تھے،اورایسے دل لیکر واپس آئے جو اوامرِ الٰہیہ، جوکہ عورت کی عزت کے تحفظ کی ضمانت ہیں کو سن کر ببانگِ دہل پوری ڈھٹائی کے ساتھ،دن دہاڑے (لا،لا)کاشور مچاتے رہیں(یعنی ہم اپنے پروردگار کے ان مبارک احکام کو نہیں مانیں گے)۔ ان کی اس حالتِ زار کی عکاسی ان اشعار سے ہوتی ہے: أقبلت من عندی زیاد کالحرف تخط رجلای یخط مختلف تکتبان فی الطریق لام الف