کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 72
(سنن الترمذي،أبواب فضائل القرآن:۳-۲۰۔۳۲۲،السنن الکبریٰ للنسائي:۶/ ۱۷۷،موطأ الإمام مالک:۱/ ۲۰۸) جبکہ صحیح بخاری اور سنن ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد قباء میں لوگوں کی امامت کراتا تھا،وہ جب بھی نماز میں کسی سورت کی تلاوت کرتا تو پہلے{قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} پڑھتا،اس کے بعد کوئی دوسری سورت تلاوت کرتا،ہر رکعت میں وہ ایسا ہی کرتا،لوگوں نے اس سے کہا:تم پہلے سورۃ الاخلاص پڑھتے ہو پھر یہ سمجھتے ہو کہ یہ سورت نماز کے لیے کافی نہیں اور کوئی دوسری سورت بعد میں پڑھتے ہو،تمھیں چاہیے کہ یا تو سورۂ اخلاص ہی پڑھو یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لو۔اس نے کہا:میں سورت اخلاص کو نہیں چھوڑ سکتا،اگر تم پسند کرتے ہو تو میں تمھاری امامت کراتا ہوں،اگر ناپسند کرتے ہو تو میں امامت چھوڑ دیتا ہوں۔لوگ اس شخص کو اپنے درمیان سب سے زیادہ متقی و افضل سمجھتے تھے،لہٰذا انھوں نے کسی دوسرے کو امام بنانا پسند نہ کیا۔جب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: ((یَا فُلاَنُ! مَا یَمْنَعُکَ مِمَّا یَأْمُرُ بِہٖ أَصْحَابُکَ؟ وَمَا یَحْمِلُکَ أَنْ تَقْرَأَ ہَذِہٖ السُّوْرَۃَ فِيْ کُلِّ رَکْعَۃٍ؟)) ’’تونے اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں مانی اور ہر رکعت میں سورت اخلاص کی تلاوت کیوں کرتے رہے؟‘‘ اس نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ((اِنِّيْ أُحِبُّہَا))’’میں اس سورت سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: