کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 177
اور ہلاکت کے کنارے پر پہنچ کر بھی شیطان اپنے شاگردوں کو یہی باور کراتا ہے:’’برخوردار! فکر نہ کرو تم جنت کی وادی میں پہنچ رہے ہو۔‘‘ 3۔ذلت اور رسوائی: قرآنِ مجید سے اعراض کی تیسری سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد یا اقوام کو ذلت اور رسوائی سے دو چار کر دیتا ہے۔صحیح مسلم اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ)) (صحیح مسلم،فضائل القرآن:۸۱۷) ‘’اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو عروج عطا فرماتا ہے اور بعض لوگوں کو ذلیل اور رسوا کردیتا ہے۔‘‘ اس حدیث شریف کا مفہوم بالکل واضح ہے،مسلمانوں کا مِن حیثُ القوم عروج و زوال قرآنِ مجید سے وابستہ ہے۔مسلمانوں نے جب بھی قرآنِ مجید پر عمل کیا تو انھیں عروج حاصل ہوا اور جب قرآنِ مجید پر عمل کرنا ترک کیا تو ذلیل و رسوا ہوئے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں قرانِ مجید کی تعلیم اور تدریس کا حکومتی سطح پر اہتمام تھا۔کلیدی عہدوں پر تقرری کے لیے قرآنِ مجید کا عالم یا حافظ ہونا سب سے بڑا استحقاق(Marit)سمجھا جاتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلسِ شوریٰ کے سارے ارکان یا تو حافظِ قرآن تھے یا عالمِ قرآن،جو تمام امورِ مملکت قرآنِ مجید کی تعلیمات کے مطابق چلاتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ چاردانگِ عالم میں مسلمانوں کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا۔قیصر و کسریٰ اپنے ملکوں میں بیٹھے خوفزدہ تھے۔ ۶۲۲ء میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی تسخیر کے لیے لشکر بھیجا