کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 175
ہیں اور اُن کو راستے سے روک رکھا ہے پس وہ راستے پر نہیں آئے۔‘‘ اور سورۃ العنکبوت میں قومِ عاد و ثمود کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے: } وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ کَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ}[العنکبوت:۳۸] ’’اور شیطان نے اُن کے اعمال ان کو آراستہ کر کے دکھائے اور اُن کو(سیدھے)راستے سے روک دیا حالانکہ وہ دیکھنے والے(لوگ)تھے۔‘‘ یہ شیطانی تسلط ہی کا نتیجہ تھا کہ فرعون اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گمراہ سمجھتا تھا۔چنانچہ سورت بنی اسرائیل میں اس کا قول یوں نقل کیا گیا ہے: } اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا}[بني إسرائیل:۱۰۱] ’’اے موسیٰ! میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔‘‘ (یعنی تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو)اور سورۃ المومن میں ہے کہ اپنے بارے میں اس نے یہ کہا: } مَآ اُرِیْکُمْ اِِلَّا مَآ اَرٰی وَمَآ اَھْدِیکُمْ اِِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ}[المؤمن:۲۹] ’’(اے میری قوم!)میں تمھیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مناسب سمجھتا ہوں اور میں تم کو صرف نیکی کی بات ہی بتاتا ہوں۔‘‘ یعنی شیطان نے فرعون کو نبوت کا راستہ گمراہی کا راستہ بنا کر دکھایا اور کفر کا راستہ نیکی کا راستہ بناکر دکھایا۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودی سردار کعب بن اشرف مکہ گیا تو قریشِ مکہ نے اس سے دریافت کیا:’’تمھارے نزدیک ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور