کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 173
گمراہی کے راستے پر نہ صرف جمائے رکھتا ہے بلکہ اُسے اِس فریب میں مبتلا رکھتا ہے کہ تم جس راستے پر چل رہے ہو یہی صراطِ مستقیم ہے۔چنانچہ سورت زخرف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: } وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَھُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ . وَاِِنَّھُمْ لَیَصُدُّوْنَھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُھْتَدُوْنَ}[الزخرف:۳۶،۳۷] ’’اور جو کوئی اللہ کی یاد سے آنکھیں بند کر لے(یعنی تغافل کرے)ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تووہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔اور یہ(شیطان)ان کو سیدھے راستے سے روکتے رہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیدھے راستے پر ہیں۔‘‘ جس شخص پر شیطان مسلط ہوگا،ظاہر ہے وہ اس سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے سارے کام کروائے گا۔کفر،شرک،نفاق،ارتداد،بدعات،قتل و غارت،سود خوری،شراب نوشی،زنا کاری،جوا،ظلم،چوری،ڈاکا،دھوکا،فریب،جھوٹ،بدعہدی وغیرہ۔ لیکن انسان پر مسلط ہونے کے بعد شیطان کا اصل کارنامہ وہی ہے جس کا آیتِ کریمہ میں ذکر آیا ہے کہ شیطان انسان کو گمراہی کے راستے پر جما دیتا ہے،پھر گمراہی کے راستے کو اس قدر خوشنما بنادیتا ہے کہ انسان گمراہی کو ہی ہدایت سمجھنے لگتا ہے۔باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگتا ہے۔جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سمجھنے لگتا ہے۔نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔شیطان کے اس مکر و فریب کو اللہ تعالیٰ نے بعض دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے۔سورۃ الانعام میں ارشادِ مبارک ہے: