کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 165
} اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا . وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا}[النبا:۶،۷] ’’کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو کھونٹے نہیں بنایا؟‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں جدید سائنسی دریافتوں سے صدیوں پہلے ان آیات کی تفسیر میں لکھا تھا: ’’أَيْ جَعَلَ لَہَا أَوْتَاداً أَرْسَاہَا بِہَا وَثَبَّتَہَا وَقَرَّ لَہَا حَتّٰی سَکَنَتْ،وَلَمْ تَضْطَرِبْ بِمَنْ عَلَیْہَا‘‘(تفسیر ابن کثیر:۴/ ۲۹۷۲) ’’اور پہاڑوں کو اس(زمین)کی میخیں بنایا ہے یعنی ان کو زمین میں میخوں کی طرح گاڑ دیا ہے تاکہ وہ ان سے جمی رہے اور تھمی رہے اور(پہلے کی طرح)ہلے جلے نہیں اور اپنے اوپر بسی ہوئی مخلوق کو پریشان نہ کرے۔‘‘ موجودہ ارضی سائنس نے ثابت کیا ہے کہ پہاڑ سطح زمین کے نیچے گہری جڑیں رکھتے ہیں اور یہ جڑیں سطح زمین پر ان کی بلندی سے کئی گنا زیادہ گہرائی میں اتری ہوئی ہیں۔لہٰذا پہاڑوں کی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے مناسب ترین لفظ’’کھونٹے‘‘(Pages)ہے،کیونکہ ٹھیک طور گاڑے ہوئے کھونٹے کا بیشتر حصہ بھی زمین کی سطح کے نیچے ہوتا ہے۔ سائنس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہاڑوں کے گہری جڑیں رکھنے کا نظریہ صرف ڈیڑھ صدی پہلے ۱۸۶۵ء میں اسٹرانومررائل(برطانوی شاہی فلکیات دان)سر جارج ایئری نے پیش کیا تھا جبکہ اس سے بارہ صدیاں پہلے قرآنِ کریم نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں بتادی تھی۔ پہاڑ قِشرِ ارض(Crust of the Earth)کو مستحکم بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔وہ زمین کے ہلنے کو روکتے ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے: