کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 161
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ عربی لفظ’’علق‘‘ کے معنی ہیں:جونک یا کوئی ایسی چیز جو کسی جگہ سے چمٹ جائے۔چنانچہ رحمِ مادر کی دیوار سے جفتے کے چمٹنے اور پرورش پانے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے قرآن میں یہ لفظ استعمال کیا گیا۔رحمِ مادر سے پوری طرح چمٹ جانے کے بعد جفتے کی نشو و نما شروع ہوتی ہے۔اور اس دوران میں رحمِ مادر ایک ایسے سیال مادے سے بھر جاتا ہے جس کا کام بچے کو باہر کی ضربوں او چوٹوں سے محفوظ رکھنا ہے۔قرآنِ کریم سورۃ المرسلات میں یہ طبی حقیقت یوں بیان کی گئی ہے: } اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ . فَجَعَلْنٰہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ . اِِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ}[المرسلات:۲۰ تا ۲۲] ’’کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا؟(پہلے)اس کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ایک معین وقت تک۔‘‘ بار آوری(Fertilization)کے بعد بچے کی نشوونما تین جگہ ہوتی ہے: 1۔ فیلوپی نالی:یہاں انڈا(بیضہ)اور نطفے کا جرثومہ یکجا ہوتے ہیں۔ 2۔ رحمِ مادر کی اندرونی دیوار:جس سے جفتہ چمٹ کر نشو و نما حاصل کرتا ہے۔ 3۔ سیال مادے سے بھری تھیلی:جس میں جنین نشو و نما پاتا رہتا ہے۔ اس کا ذکر کلامِ الٰہی میں یوں آیا ہے: } یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِنْم بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہٗ الْمُلْکُ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ}[الزمر:۶] ’’وہی تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹ میں(پہلے)ایک طرح پھر دوسری طرح تین اندھیروں میں بناتا ہے۔یہی اللہ تمھارا پروردگار ہے،اسی کی بادشاہی