کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 159
ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نطفے یا مادۂ منویہ کی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب اس کے لیے عام جسمانی درجۂ حرارت کی نسبت دو درجے کم حرارت والا ماحول میسر ہو۔درجۂ حرارت کو اس سطح پر قائم رکھنے کے لیے مرد کے خصیوں کے اوپر ایک خاص قسم کی کھال ہوتی ہے جو کم درجۂ حرارت پر سکڑتی اور زیادہ درجۂ حرارت پر پھیلتی ہے۔ظاہر ہے مرد تو دو درجے کے فرق کا نازک توازن قائم نہیں رکھ سکتا اور نہ اس میں باقاعدگی لا سکتا ہے بلکہ اسے تو اس عمل کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ انسانی نطفہ(مادۂ منویہ)خصیوں میں ۱۰۰۰ خلیات فی منٹ کی شرح سے پیدا ہوتا ہے اور عورت کی بیضہ دانی تک پہنچنے کے لیے ہر خلیے(جرثومے)کو ایک خاص شکل دی جاتی ہے،پھر جنسی ملاپ کے وقت نطفے کا سفر یوں طے پاتا ہے جیسے وہ اُس جگہ سے’’واقف‘‘ ہو جہاں اسے پہنچنا ہے۔نطفے کے ہر خلیے کا ایک سر،ایک گردن اور ایک دم ہوتی ہے۔اس کی دم رحمِ مادر میں داخل ہونے میں مچھلی کی مانند اس کی مدد کرتی ہے۔اس کے سر والے حصے میں بچے کے مورثی کوڈ(Genetic Code)کا ایک حصہ ہوتا ہے جو ایک خاص حفاظتی جھلی میں لپٹا ہوتا ہے۔یہ حفاظتی ڈھال اس وقت کام آتی ہے جب نطفہ رحمِ مادر کے راستے کو تیزابی ماحول فراہم کرتا ہے تاکہ ماں کو مُضر خرد بینی جراثیم سے تحفظ دیا جائے۔ جب بیضے(انڈے)کو بارآور کرنے والا نطفہ اس کے قریب پہنچتا ہے تو انڈا ایک خاص رطوبت خارج کرتا ہے جو نطفے کے ایک جرثومے کی حفاظتی جھلی کو تحلیل کردیتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس جرثومے کی سطح پر موجود خامروں(Enzymes)کی تھیلیوں کے منہ کھل جاتے ہیں اور ان سے خارج ہونے والے خامرے بیضے کی جھلی میں سوراخ کردیتے ہیں تاکہ جرثومہ اندر داخل ہوسکے۔انڈے کے ارد گرد موجود نطفے کے جرثومے(خلیات)اندر داخل ہونے