کتاب: عظمت قرآن : بزبان قرآن - صفحہ 118
پہلی مثال: خلیفۂ دوم امیر المؤمنین حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلام لانے سے پہلے ایک روزمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے کے لیے گھر سے نکلا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے حرم میں داخل ہوچکے تھے۔میں جب حرم میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سورۃ الحاقہ تلاوت فرما رہے تھے۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور سننے لگا۔قرآنِ پاک کے پُر اثر کلام پر میں حیران ہورہا تھا کہ یکایک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ شخص ضرور شاعر ہے۔تب فوراً ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے: } اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ . وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ}[الحاقۃ:۴۰،۴۱] ’’کہ یہ(قرآن)بزرگ رسول کا پیغام ہے۔اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں لیکن تم لوگ بہت ہی کم یقین کرتے ہو۔‘‘ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر یہ شاعر نہیں تو پھر کاہن ہے۔اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے: } وَلاَ بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ . تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ}[الحاقۃ:۴۲،۴۳] ‘’اور نہ کسی کاہن کا قول ہے لیکن تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔(یہ تو)پروردگار عالم کا اتارا(ہوا)ہے۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ادا کی گئی قرآن مجید کی یہ آیات میرے دل پر اسلام کا نقشِ اولیں ثابت ہوئیں۔ اس کے بعد وہ مشہور واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ