کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 87
یہ جواب تو اس تقدیر پر ہے کہ:سننت لکم قیامہ والی روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے ورنہ حق تو یہ ہے کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے اس کا ایک راوی نضر بن شیبان بالکل ضعیف ہے تہذیب التہذیب میں ہے: نضر بن شیبان الحدانی روی عن ابی سلمة بن عبدالرحمن بن عوف عن ابیہ فی فضل رمضان قال ابن ابی خیثمة عن ابن معین لیس حدیثہ بشٔ وقال البخاری فی حدیثہ ہٰذا لم یصح وقال النسائی لہا اخرج حدیثہ ہٰذا خطاء ..... وقد حزم جماعة من الائمة بان ابا سلمة لم یصح سماعہ من ابیہ تنضعیف النصر علی ہٰذا متعین(ص438 ج 10) میزان الاعتدال میں ہے: قال ابن خراش لا یعرف الا بحدیث ابی سلمة یعنی فی شہر رمضان وقال یح بن معین لیس حدیثہ بشٔ وعلل البخاری والدارقطنی حدیثہ بانہ رواہ یح بن سعید والزہری ویح بن ابی کثیر عن ابی سلمة عن ابی ہریرة لکنہ لم یذکر وسننت لکم قیامہ(ص234 ج 3) لیجئے! اب تو جڑ ہی کٹ گئی نخل آرزو کی۔ قولہ:دوسری وجہ یہ ہے کہ تہجد کی رکعات بالاتفاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ مع الوتر تیرہ او رکم سے کم سات مع الوتر ہیں ..... .. برخلاف تراویح کے کہ اس کا کوئی معین عددعلامہ ابن تیمیہ وغیرہ کی تصریح کے بموجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔(ص...) ج: پچھلے صفحات میں ہم نے آپ کے اس فریب کا پردہ چاک کر دیا ہے اور