کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 408
غائب کیا ہے کہ پوری کتاب میں کہیں بھولے سے بھی اس کا ذکر نہیں آنے دیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اندھیر یہ کیا ہے کہ امام ابن تیمیہ ؒ کی اس تصریح کے باوجود ان کی طرف اس بات کی نسبت کر دی ہے کہ’’ان کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے(دیکھو رکعات ص۱۶)۔ ؎ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بولعجبی ست مولانا مئوی نے بھی اکثر مقامات میں الانقاد الرجیح ہی کا ایک جگہ مرقاۃ کا حوالہ دیا ہے۔مگر مولانا کی بدقسمتی سے یہ عبارت ان دونوں کتابوں میں موجود ہے۔اگر واقعی امام ابن تیمیہؒ کا منشا وہی ہے جو مولانا نے جابجا بیان کیاہے تو پھر اس ٹکڑے کو چھپانے کی کوشش کیوں کی گئی ہے؟ اسی طرح رکعات ص ۹ میں بھی مولانا نے اس عبارت کا کچھ حصہ آگے پیچھے سے حذف کر کے پیش کیا ہے اور کوئی حوالہ نہیں دیا ہے اور پورے فنکارانہ طریقہ پر یہ مغالطہ آمیزبات لکھ دی ہے کہ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے جہاں حضرت عمرؓ کے تراویح قائم کرنے اوربعد میں اس پر عمل درآمد کا ذکر کیا ہے تو اس عہد میں یا اس کے بعد گیارہ کاذکر بھولے سے بھی نہیں کیا ہے۔‘‘ اسی قسم کے مغالطے رکعات کے ص۵۴ اور ص۵۵ پر بھی موجود ہیں اورقطع وبرید کے ساتھ ہیں جو مولانا کی عادت ہے۔ گذارش یہ ہے کہ خالص حضرت عمرؓ کے عہد میں یا اس کے بعد گیارہ پر عمل ہونے کا ذکر نہ کرنے کے باوجود کیا شیخ الاسلام کو گیارہ رکعت کے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے سے انکار ہے؟کیا اسی عدد پراقتصار کرلینے کو وہ نادرست کہتی ہیں۔کیا ایسا کرنے والے کو وہ سنت مؤکدہ کا تارک اورگنہگارقرار دیتے ہیں؟