کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 387
’’لہذا اگر کوئی یہ دعوی کردے کہ حضرت عمر کے زمانے سے اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ تراویح کی رکعتیں کم از کم بیس ہیں یا یوں کہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد سے اس بات پر سب کا اتفاق و اجماع ہے کہ تراویح کی رکعتیں بیس یا بیس سے زائد ہیں تو اہل حدیث کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟‘‘۔(رکعات ص ۸۶) ج:اہلحدیث کے پاس اس کے متعدد جواب ہیں سنیئے: اولاً آپ کا یہ دعوی مبہم ہے اس کی ذرا وضاحت کیجئے کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ’’تراویح کی رکعتیں بیس یا بیس سے زائد ہیں’‘۔ان دونوں عددوں کی نسبت حضرت عمرؓ ہی کے زمانہ میں سب کا اتفاق و اجماع ہو گیا تھا اور یہی اجماع ان کے زمانے کے بعد بھی قائم رہا؟یا یہ مطلب ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تو صرف بیس ہی رکعت پر اجماع ہوا تھا،لیکن ان کے زمانے کے بعد بیس سے زائد پر بھی اجماع ہو گیا ہے۔ اگر آپ پہلی صورت کے مدعی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ جن روایتوں میں بیس سے زائد رکعتوں کے پڑھنے کا ذکر ہے وہ حضرت عمرؓ کے زمانہ کو بھی شامل ہیں۔یعنی حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی لوگ بیس رکعت سے زیادہ تراویح پڑھتے تھے۔حالانکہ اس سے پہلے آپ بار بار اس کا انکار کر چکے ہیں،بلکہ اس کا مذاق اڑا چکے ہیں۔تو آپ کے دونوں کلاموں میں اختلاف و تدافع ہوا۔اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟ اور اگر آپ دوسری صورت کے مدعی ہیں تو یہ صورت دو شقوں کو شامل ہے۔پہلی شق یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں صرف بیس رکعت پر اجماع ہوا اور دوسری شق یہ ہے کہ ان کے زمانے کے بعد بیس سے زائد پر اجماع ہو گیا۔تو