کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 385
سمیت)پڑتھے تھے۔مولانا مئوی ہزار اس کا انکار کریں مگر شیخ عبدالحق محدث دہلوی جیسے حنفی عالم کے اس اقرار کے بعد اہل حدیث کی الزامی حجت اپنی جگہ جوں کی توں قائم ہے۔مولانا مئوی نے اس روایت کے’’بالکل بے اصل و بے بنیاد‘‘ہونے کی دلیل یہ دی ہے کہ قیام اللیل میں صاف صاف مذکور ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے قاریوں کو حکم دیا تھا کہ وہ چھتیس تراویح اور تین وتر پڑھا کریں۔اور داؤد بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے ان کے زمانے میں لوگوں کو چھتیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے دیکھا ہے۔ لیکن مولانا مئوی ہی نے اس کے بعد اسی قیام اللیل کے حوالہ سے عمرو بن مہاجر کا جو بیان نقل کیا ہے اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جو چھتیس رکعت اور وتر سمیت انتالیس رکعت پڑ ھنے کا حکم دیا تھا تو وہ کوئی قطعی حکم نہ تھا۔کیونکہ عمرو بن مہاجر کا بیان یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی موجودگی ہی میں ان کی عام رعیت رمضان میں تیس رکعتوں کے ساتھ قیام کرتی تھی۔اس روایت میں وتر کا ذکر نہیں ہے۔اگر اس کے ساتھ تین رکعت وتر بھی ملا لیجئے تو زیادہ سے زیادہ تینتیس رکعتیں ہوں گی حالانکہ حکم تھا انتالیس رکعتوں کے پڑھنے کا۔تو اسی طرح اگر کچھ لوگ تشبّہا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتیں بھی پڑھتے رہے ہوں تو اس میں کیا استحالہ اور تناقض ہے؟کچھ لوگوں کے تیس یا انتالیس رکعتیں پڑھنے سے دوسروں کے گیارہ رکعت پڑھنے کی روایت کا’’بالکل بے اصل و بے بنیاد ‘‘ہونا کیسے لازم آتا ہے؟ ایک لطف کی بات اور اس کا جواب:خاص بیس رکعت پر اجماع اور اسی پر عمل کے استقرار(ٹھہراؤ)کا بطلان ثابت کرنے کے لئے تحفۃ