کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 369
ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ‘حضرت حسن بن علی ‘حضرت معاویہ ‘حضرت عمران بن حصین‘حضرت سمرہ بن جندب’حضرت ابن عباس ‘حضرت مغیرہ بن شعبہ’حضرت حفصہ ‘حضرت ام سلمہ’حضرت انس‘حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنھم(تہذیب التہذیب ص۱۷۱ج۱۱) دیکھیے ابو مجلزؒ اور ان کے تمام مقتدی تراویح کی صرف سولہ ہی رکعتیں ادا کرتے تھے۔گویا مسلمانوں کی ایک جماعت اس زمانے میں جو بلا شبہ خیر القرون کا زمانہ تھا۔بیس رکعت سے کم پڑھتی تھی توپھر بیس پر عمل کے استقرا ر کا دعویٰ کہاں صحیح رہا؟یہ تو اس روایت کا بالکل ظاہر اور مصرح مدلول ہے’لیکن مولا نا مئوی کے مزعومہ اصول کے لحاظ سے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابو مجلز کا یہ عمل زبردست قرینہ ہے اور دلیل ہے۔اس بات کے لیے کہ انہوں نے جن صحابہ کی شاگردی کی اوران کی صحبت سے فیضیاب ہوئے ان سب صحابہ کا بھی یہی عمل تھا اور ان صحابہ کے اس عمل کی بابت عہد فاروقی اور اس کے بعد کے زمانے کے مابیں فرق کا جو مدعی ہو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ورنہ ہم تو کہیں گے کہ دونوں زمانوں میں ان کا عمل وہی تھا جو ابو مجلز کا اس روایت میں مذکور ہے۔یعنی سولہ رکعات اس اثرکی زد بھی اجماع اور استقرار عمل کے دعووں پر صاف طور پر سے پڑرہی ہے۔اس لیے مولا نا مئوی نے اسکا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔آپ بھی ان کا جواب سنیے اور لطف اٹھائیے۔لکھتے ہیں: اس روایت کے الفاظ سے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سولہ ہی رکعتوں کے قائل تھے۔اس لیے کہ ممکن ہے وہ چار ترویحوں میں ایک منزل سنا کر چار رکعتیں دوسرے حافظ کے پیچھے پڑھتے ہوں یا