کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 360
معاذ کے عمل کا بیان ہوا جو کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص اور مقید نہیں ہے بلکہ اپنے اطلاق کے اعتبار سے حضرت عمرؓ کے زمانے کو بھی شامل ہے اور اسکے بعد کے زمانے کو بھی۔بلکہ حضرت عمرؓ کے زمانے کا واقعہ ہونا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔اس لئے کہ ابن سیرین نے حضرت ابو حلیمہ کی امامت کے زمانے کا حال بیان کیا ہے اور حضرت ابو حلیمہؓ تراویح کے امام حضرت عمرؓ ہی کے زمانہ میں تھے حافظ ابن حجرؒ انہیں کی بابت لکھتے ہیں:وھو الذی اقامہ عمر یصلی التراویح فی شھر رمضان(اصابہ ص ۴۲۸ جلد ۲)ابن عبدالبرؒ ان کی نسبت لکھتے ہیں:وھو الذی اقامہ عمر بن الخطاب فیمن اقام فی شھر رمضان لیصلی التراویْ انتھی(الاستیعاب علی حاشیۃ الاصابہ ص ۳۶۷ ج ۳) یعنی یہ بھی ان صحابہ میں سے ہیں جن کو حضرت عمرؓ نے تراویح کا امام مقرر کیا تھا جب یہ حضرت عمرؓ کے زمانے کا واقعہ ہوا یا کم از کم یہ حضرت عمرؓ کے زمانے کو بھی شامل ہے تو عہد فاروقی میں خاص بیس رکعت پر اجماع ہوجانے کا دعوی یقینا باطل ہو گیا اسی طرح بیس ہی رکعت پر عمل ٹھہر جانے کا دعوی بھی باطل ہو جاتا ہے۔ رہا اس تقدیر پر اس کے منقطع ہونے کا شبہ تو واضح رہے کہ محمد بن سیرین تابعی ہیں اور حنفیہ کے نزدیک تابعی اور تبع تابعی کا ارسال و انقطاع روایت کے لئے کچھ مضر نہیں ہے۔ان کے نزدیک ایسی منقطع روایت بلا شبہ حجت اور مقبول ہے۔مولانا بحرالعلوم حنفی لکھتے ہیں: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم الوضو من کل دم سائل رواہ ابن عدی فی الکامل والدارقطنی وقال رواہ عمر بن عبدالعزیز عن التہیم(۱)الداری ولم یرہ ولا یضر فان غایتہ الانقطاع (۱)کذافی اصل