کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 225
ان کا ترجمہ اسماء الرجال کی کتابوں میں کہیں نہیں ملتا۔گویا ان کی عدالت مجہول ہے اور تدریب الراوی کا حوالہ پہلے گذر چکا کہ مجہول العدالة ظاہرا و باطنا کی روایت عندالجمہور غیر مقبول ہے اور اگر باصطلاحِ محدثین ان کو ''مستور' ' کہا جائے تب بھی جمہور محدثین کے نزدیک ان کی روایت مردود ہے۔البتہ حافظ ابن حجر نے ایسے شخص کی روایت کو درجہ توقف میں رکھا ہے جو عملاً ردّ ہی کے حکم میں ہے۔(دیکھو شرح نخبہ ص71) اور حنفیہ کے نزدیک تو مستور کی روایت کا وہی حکم ہے جو فاسق کی روایت کا ہے۔تفصیل آیندہ آئے گی۔فانتظرہ مفتشاً۔ قولہ: اور محدثین میں سے کسی شخص نے ان کی تضعیف نہیں کی ہے۔زیادہ سے زیادہ ان کی نسبت اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم کو معلوم نہیں ہے کہ ان کو کسی نے صراحةً ثقہ کہا ہے۔تو ایسے راوی تو صحیحین میں بھی بکثرت موجود ہیں۔(رکعات ص49) ج: ابو عثمان عمرو بن عبداللہ کا جب ترجمہ ہی کہیں نہیں ملتا تو اب اس کیا سوال کہ اس کو کسی نے ضعیف نہیں کہا۔نہ ضعیف کہا ہے،نہ ثقہ کہا ہے۔اس لئے یہ دونوں کا احتمال رکھتا ہے۔جب تک عدالت کا ظن غالب نہ ہو گا،روایت مقبول نہیں ہو سکتی …… للاجماع علی ان الفسق یمنع القبول فلابد من ظن عدمہ وکونہ عدلاً وذلک مغیب عنا انتہیٰ …(حاشیہ شرخ نخبہ ص71) یعنی اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ راوی کا فسق حدیث کی مقبولیت سے مانع ہے۔لہٰذا اس کے عدم کا اور راوی کے عدل کا ظن غالب ہونا ضروری