کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 223
بلکہ اس اعتبار سے اس کا معاملہ مشتبہ ہو،اس کی شہادت اور روایت کی مقبولیت تعدیل و تزکیہ کی محتاج ہے۔ مولانا مؤی نے بڑی شیخی اور شوخی کیساتھ لکھا ہے کہ '' حافظ سخاوی نے لفظ امام اور حافظ کو بھی الفاظ توثیق میں شمار کیا ہے ''۔(رکعات ص 48) لیکن جناب کو پتہ نہیں ہے کہ حافظ ذہبی نے ان دونوں الفاظ کو مجروح کی نسبت بھی استعمال کیا ہے۔پھر عدالت و ثقاہت کا استلزام کہاں باقی رہا۔حافظ سخاوی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ جب کسی عادل کے حق میں یہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے تو اس وقت ان کا شمار الفاظِ توثیق میں ہوگا۔یہ منشاء نہیں ہے کہ جہاں علم و فن کی مہارت اور کمال کا اظہار مقصود ہو یا کوئی مجہول الحال راوی ہو وہاں بھی تعدیل ہی مراد ہوگی۔چنانچہ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں: اما الفاظ التعدیل فعلی مراتب الاولی قال ابن ابی حاتم اذا قیل للواحد انہ ثقة متقن فھو ممن یحتج بحدیثہ قلت و کذا اذا قیل ثبت اور حجة و کذا اذا قیل فی العدل انہ حافظ اور ضابط واللّٰه اعلم۔(مقدمہ ص47) دیکھیے حافظ ابن صلاح صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ اذا قیل فی العدل انہ حافظ او ضابط۔(یعنی جب کسی ''عادل '' راوی کے حق میں کہاجائے گا کہ یہ ''حافظ'' ہے۔تب اس کی حدیث حجت ہوگی)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر راوی مجہول الحال ہو تو اس لفظ سے اس کی عدالت ثابت نہیں ہوگی اور نہ اس کی روایت حجت ہوگی۔ملامحب اللہ بہاری مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں:ارفعہا فی التعدیل حجة و ثقة و حافظ و ضابط توثیق للعدل۔یعنی کسی راوی کے تزکیہ کے بارے میں سب سے بلند الفاظ یہ ہیں کہ اسکو کہا جائے کہ وہ حجت ہے یا