کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 137
کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔اس سے بھی ذہبی کے فیصلہ کی تائید ہوتی ہے۔ 3۔ تیسری دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی وہ حدیث اس کی شاہد ہے جس میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعات مع وتر سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہی وہ جواب ہے جس کو ''علامہ'' مئوی نے ''مقلدانہ'' کہا ہے۔سچ ہے ع حسود راچہ کنم کہ راضی نہ می شود قولہ:تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ جناب نے اس مقام پر جہاں ذہبی نے ایک حدیث کے باب میں فیصلہ کیا ہے کہ … وہاں آپ نے لکھ دیا کہ اس سے دل مطمئن نہیں ہے اور یہ فرما دیا کہ:جواب الذھبی محتاج الی الدلیل(دیکھو ابکار المنن ص 50 و رکعات 31) ج:یہ اعتراض تو آپ کے اس مفروضہ کی بنا پر ہے کہ مولانا نے یہ لکھا ہے کہ ذہبی کی بت بلا دلیل مان لو۔حالانکہ مولانا نے یہ ہرگز نہیں لکھا ہے اور نہ حدیث جابر زیر بحث کی بابت ذہبی کے فیصلہ کو مولانا نے لا دلیل مانا ہے۔ان دونوں باتوں کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔اس لئے محولہ بالا مقام پر مولانا نے اگر یہ لکھا کہ ''ذہبی کا جواب محتاج دلیل ہے ''۔تو تحفت الاحوذی والی بات کے وہ ہرگز معارض نہیں۔ ذہبی کے فضل و کمال کا اعتراف نیموی کے مقابلہ میں ہے۔یہ منشا نہیں ہے کہ جہاں کہیں بھی رواة کے جرح و تعدیل کی بحث آئے،ہر مقام پر،اور دنیا کے ہر محدث کے مقابلے میں ذہبی ہی کا فیصلہ صواب ہو گا۔یہ مفروضہ تو محض آپ کے ذہن کی اختراع ہے۔جو اپنی محدثیت کا رنگ جمانے کے لئے آپ نے گھڑ لیا