کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 124
یلزم من قبولہا رد الرویاة لاخرٰی فہذہ التی یقع الترجیح بینہا و بین معارضہا فیقبل الراجح ویرد المرجوح انتہیٰ(شرح نخبہ ص37) اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ '' اگر دو ثقہ راویوں میں کسی بات کے ذکر اور عدم ذکر کا اختلاف ہو(جیسے یہاں رکعات کی تعداد کے ذکر اور عدم ذکر کا اختلاف ہے)تو ان دونوں روایتوں کے مضمون میں اگر ایسی مخالفت او رمنافات ہو کہ ایک روایت کے ماننے سے دوسری روایت کی تردید و تکذیب لازم آئے تو اس صورت میں جو روایت وجوہ ترجیح کے اعتبار سے راجح ہو گی وہ مقبول ہو گی اور مرجوح غیر مقبول ہ و گی۔اور اگر ان دونوں روایتوں میں اختلاف کی یہ صورت نہ ہو تو راجح مرجوح کا مقابلہ کیے بغیر ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہو گی ''۔ جب یہ ثابت ہو چکا کہ عیسیٰ ثقہ راوی ہے اور اس کے بیان میں اور دوسرے راویوں کے بیان میں کوئی منافات نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں میں باجماعت نمازیں پڑھی تھیں اور ایک شخص یہ کہتاہے کہ یہ نمازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات(بلا وتر)پڑھی تھی تو ان دونوں بیانوں میں کیامنافات اور تعارض ہے؟ پس حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق عیسیٰ کی یہ '' زیادة'' راجح اور مرجوح کا مقابلہ کیے بغیر مقبول ہو گی اور اس '' زیادة'' میں اس کا متفرد ہونا ہر گز اس کی روایت کے لئے کسی قدح کا موجب نہیں ہے۔یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس حدیث کا کوئی شاہد نہیں ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة اس کی شاہد ہے۔اور اگر بالفرض کوئی شاہد یا متابع نہ بھی ہو تو محض متابع اور شاہد کا نہ ہونا بھی کوئی قدح کی بات نہیں۔جب تک اس کے ساتھ دوسرے وجوہ قادحہ موجود نہ ہوں