کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 96
مہمان ،عطیہ دہندہ یا رفاہی ادارے کے سربراہ کی آمد پر مہینوں سے بند پڑے کمپیوٹر لیب میں جو جھاڑ پونچھ کی جاتی ہے ،مشینوں پر جمی دھول کی تہہ صاف کی جاتی ہے اوروقتی طور پر جو چمک دھمک اور سیکھنے سکھانے کا تسلسل دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہ ملت کی امانت میں بدترین خیانت ہے۔اس سے ماہرین علوم شریعت کو تو بہرحال دور رہنا چاہیے۔یہ ملت اور اس کے بچوں کے ساتھ انصاف نہیں ہے کہ کسی رفاہی ادارے سے انجینئرنگ کالج کی عالی شان عمارت تعمیر کرالی جائے اور پھر اسے چمگادڑوں کا مسکن بناکر چھوڑ دیاجائے یا کسانوں کو اجازت دے دی جائے کہ تم اس میں اپنے جانوروں کا بھوسہ بھر لیا کرو۔اللہ کی کتاب کے نام پر اکیڈمی کی بھاری بھرکم عمارت بنادی جائے اور پھر اسے سیلن کھانے کے لیےخالی چھوڑ دیا جائے۔اگر آنکھیں سلامت ہیں ،بصیرت زندہ ہے ،ضمیر مرا نہیں ہے تو ان عجائبات کا مشاہدہ ہر کوئی کرسکتاہے۔آخر کب تک اپنے اندر کی آواز کو ہم دباتے رہیں گے،گھٹن بڑھ گئی تو دم نکل جائے گا۔ہندوستان کی ملت اسلامیہ اپنی تاریخ کے بہت نازک دور سے گزررہی ہے ،ہمارا دینی نظام ہی اس کا واحدسہاراہے، جو اس کی تہذیب ،ثقافت ،مذہب اور تشخص کی حفاظت کرسکتاہے۔اس نظام کو جواب دہ اور ذمہ دار بنائیں۔اس تحریر کو تنقید نہ سمجھیں لکھنے والا بھی اسی نظام کا حصہ ہے،ایک پریشان دل کی یہ آواز ہے،خدارا اسے سنیں اور محسوس کریں۔ (3)ایک استاذ اپنی تدریس کے ماہ وسال میں سیکڑوں طلبہ کی تعلیم وتربیت کرتا ہے ،ان کی زندگیوں کو سنوارتاہے اور انہیں اس قابل بناتاہے کہ وہ میدان عمل میں اتر کر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ استاذ بوڑھاہوتا ہے اس کے تلامذہ بالعموم جوان ہوتے ہیں ۔استاذ کی کارکردگی سمٹتی جارہی ہوتی ہے اور اس کے شاگردوں کی کارکردگی وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہوتی ہے ،شاگردوں میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے ،کوئی امیر بنتاہے اور کوئی بہت زیادہ امیر،کوئی تجارت میں لاکھوں کماتاہے تو کسی کو زیادہ آمدنی والی ملازمت مل جاتی ہے۔کیا ملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ایک استاذ کے شاگردوں کی اپنے محترم استاذ کے تعلق سے کوئی ذمہ داری نہیں ،جس استاذ نے علم دیا،اپنی زندگی کے تجربات سے فیض یاب کیا ،لکھنا اور بولنا سکھایا ،بھلے برے کی پہچان عطا کی ،دنیامیں سر اٹھا کر جینے کا