کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 94
اور لوگوں سے ان کی زکوۃ ،صدقات اور عطیات جمع کرکے کسی نہ کسی طرح اس نظام کو قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس کا نظام چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ملت کو مدارس کی انتظامیہ کی ان خدمات واحسانات کا اعتراف ہے۔لیکن اس سے کہاں یہ لازم آتاہے کہ اسی نظام سے ایک ایسی چیز کونہ جوڑا جائے جو انسان کے بنیادی حقوق سے تعلق رکھتی ہے۔کیا اسلام اتنا سنگ دل ہوسکتاہے کہ ایک استاذ کی جوانی وتوانائی کا ایک ایک قطرہ کشید کرلینے کے بعد اسے بڑھاپے میں بے یارو مددگار چھوڑ دےیا اس کی بیماری میں اسے سہارا نہ دے۔ جس استاذ نے ملت کی دوتین نسلوں کی تربیت کی ہے، جن کے دلوں میں اپنے لیے احترام پیدا کیاہے،اب ضعیفی اور بیماری میں سماج کے سامنے اپنی عزت نفس اور خود داری کو نیلام کردے۔پنشن جاری کرنے یا کسی ہنگامی صورت حال میں کوئی خاص مدد بہم پہنچانے کا نظام پوری دنیا میں مروج ہے۔انسانی حقوق کے تعلق سے دنیا اب اس قدر آگے جاچکی ہے کہ کارخانوں کے مزدوروں کے بھی حقوق متعین ہیں۔کسی ناگہانی کے موقع پر ان کو یا ان کے بچوں کوسہارا ملتاہے۔ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ابھی تک انسان کے بنیادی حقوق کا نہ ادراک کرسکے ہیں اور نہ اپنے دینی سماج کو اس کی تفہیم کراسکے ہیں۔ذیل میں چند ایک تجاویزملت ،مدارس کی انتظامیہ اور فیض یافتگان مدارس کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے ،امید ہے کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیاجائے گا اور اہل قلم سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں آپ اپنی تجاویز اور مشوروں سے بھی نوازیں تاکہ ایک مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا کیا جاسکے اور بچوں کے اساتذہ کرام کی عزت وناموس کی حفاظت ہوسکے۔ (1)مدارس کے نظام میں پنشن کی اسکیم پر غور کیاجائے ۔بعض مدارس نے اپنے یہاں یہ اسکیم نافذ کررکھی ہے،ان کےتجربات سے فائدہ اٹھایاجائے۔ہماری حکومت پنشن کی اسکیم کو کیسے چلاتی ہے ،اس کے ماہرین سے مشورہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔اساتذہ کرام کو جومشاہرہ دیاجاتاہے ،اسی سے کچھ رقم ماہ بہ ماہ مختص کی جائے اور اس کا الگ حساب کتاب رکھاجائے۔کسی استاذ کوکوئی ہنگامی ضرورت پیش آئے تو اس کی مدد کی جائے۔اس نظام کو شفافیت کےساتھ قائم کیاجائے۔انتظامیہ