کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 82
داخل ہوگا‘‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی ۔ تو جب ان صحابی سے سیدنا عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہنے اس کی وجہ دریافت کی تو وہ فرمانے لگے :’’ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے متعلق کوئی کینہ نہیں رکھتا اور کسی مسلمان کو ملنے والی نعمتوں اور خیر پر اس سے حسد نہیں کرتا‘‘ تو عبد اللہ فرمانے لگے ’’ یہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو اس درجے تک پہنچایا اور جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے‘‘۔ [1] اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صورت حال تھی کہ جب آپ اسراء ومعراج کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذرے تو وہ رونے لگے۔ تو یہ رشک ہےجسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک فرمان میں حسد کا نام دیاہےچنانچہ آپ نے فرمایا ’’ کسی شخص پر حسد ( رشک ) کرنا سوائے دو شخصوں کے جائز نہیں، ایک وہ شخص جسے اللہ نے کتاب دی اور وہ اٹھ کر اسے رات کو پڑھتا ہے اوردوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ دن رات اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہے‘‘ ۔ [2] اسی اعلیٰ صفت کی بنیاد پر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کا وزن پوری امت کے ایمان سے کیا گیا ۔ وہ ان میں سے ہیں جن کے بارے میں باری جل وعلا نے یہ فرمایا : {وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (10) أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ} [الواقعة: 10، 11] ترجمہ :’’اور جو سبقت لے گئے تو وہ سبقت لے گئے ،یہ وہ (خوش نصیب) ہیں جن کو نوازا گیا ہوگا قرب (خاص) سے‘‘۔ دوم : جائز حسد :دنیا کے معاملات میں دو شرائط کے ساتھ رشک جائز ہے ۔ پہلی شرط : برکت کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ ۔ دوسری شرط :اپنے مومن بھائی سے اس نعمت کے زوال کی تمنا نہ کی جائے ۔ صحیح بخاری ، 2/ 201
[1] السلوک 10 / 119 [2] صحیح بخاری ، 2/ 201