کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 75
ابتدائی تین سوالوں کا جواب اگر ہاں میں ہے تو وصف بیان کرنے والے شخص کا جوٹھا اس کا لعاب یا پسینہ ، لیکر اسے پانی میں ملاکر متاثرہ شخص کےسر پر سےایک بار بہایاجائے ۔ اور اگر نظر نے جسم کے کسی اندرونی حصے کو متاثر کیاہو جیساکہ پیٹ تواس پانی کو پی لینا چاہئے۔اوران دونوں کاموں میں جمع کرنا بھی افضل ہے ۔ اور چوتھے سوال کا جواب اگر ہاں میں ہوتو اس کے متعلق ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے رہنمائی ملتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خواب کی کنیت اور نام ہوتے ہیں لہذا انہیں ان کی کنیت اور ناموں کے لحاظ سےپہچانا کرو ‘‘۔[1] پس اس مریض سے ہم پوچھیں کہ آپ اس حیوان سے اپنے عزیزوں دوستوں اور پڑوسیوں میں سے کون مراد لیتے ہیں ، یا آپ اس حیوان کو کس جگہ پاتے ہیں ؟ اس سوال سے اس کے دل میں چند افراد کا نقشہ آئے گا جس کی روشنی میں ان پر حسنِ ظن رکھتے ہوئے ان کا استعمال شدہ پانی وغیرہ لیکرمریض کو پلایا جائے ۔ کیونکہ انسان اگر مسلسل اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تو وہ اس ذریعہ سے اس شیطان کو تکلیف پہنچاتا رہتاہے جو اس صفت وتعریف کے ذریعے آیا ہوتاہے ، اس لئے پھر وہ اسے خواب میں نظر لگانے والے شخص یا ایسے جانور کی شکل میں نظر آتاہے جس سے نظر لگانے والے کی نشاندہی ہو ، تاکہ وہ اس تکلیف سے نجات پائے جس میں وہ مسلسل جکڑا ہواہے ۔ جیساکہ وہ اپنی زبان حال سے یہ کہہ رہاہوتاہے کہ :’’ یہ ہے وہ شخص نظر لگانے والا لہٰذا اس کا اثر لے لو اور مجھے اس عذاب سے نجات دلادو جس میں میں مبتلاہوں‘‘ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ تم میں سے ایک اپنے شیطان کو اتنا تھکا دیتاہے جتناکہ تم میں سے ایک اپنے اونٹ کو سفر میں تھکادیتاہے ‘‘۔[2]یعنی کثر ت ذکر کی وجہ سے ۔ ( اس کا شیطان اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتاہے )۔ دوم : کسی کی تعریف کے ساتھ برکت کی دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اس جن کومتاثرہ شخص تک پہنچے سے روک دیتاہے اور اسے اس سے محفوظ کردیتاہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ ’’ تم نے برکت کی دعا کیوں نہ کی ؟‘‘ سے یہی معنیٰ مستفید ہوتاہے ۔ اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
[1] اس روایت کو ابن ماجہ نے نقل کیاہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے ۔ [2] مسند امام احمد 2/380