کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 57
وارض کے کلام کا مقابلہ کرسکیں ؟! ایسا کلام کہ اگر وہ پہاڑوں پر نازل ہوتا تو انہیں ریزہ ریزہ کردیتا، اور اگر زمین پر نازل ہوتا تو اسے چیر دیتا ۔ لہٰذا دلوں اور جسموں کی کوئی بھی بیماری ہو مگر قرآن میں اس کا علاج اور اس کے سبب پر دلالت ورہنمائی موجود ہے ۔ تو جسے قرآن شفاء نہ دے سکے اللہ اسے کبھی شفاء نہ دے ، اور جسے قرآن کافی نہ ہو اسے اللہ بھی کافی نہ ہو۔‘‘[1] لہٰذا قرآن مجید سے علاج کرتے وقت یقینِ کامل ، اور اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ بیمار کے دوا سے فائدہ اٹھانے کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اسے قبول کرے اور اس سے فائدہ حاصل ہونے کا اعتقاد رکھے‘‘ ۔ [2] اللہ تعالیٰ کے کلام کو تجرباتی طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ایسا کرنا اعتقاد میں خلل کی دلیل ہے ۔ اگر کسی نے زمزم کے پانی کو بطور تجربہ استعمال کیا تو اسے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ضروری ہے کہ کامل یقین کے ساتھ اس سے اللہ کے حکم سے فائدہ حاصل ہونے کے عقیدہ کے ساتھ پیا جائے تو فائدہ حاصل ہوگا ۔ الغرض قرآن مجید کے ذریعہ جسمانی امراض کے علاج کی بات کی جائے تو بات بہت طول پکڑ جائے گی مگر بغرض تفہیم میں یہاں چند ایک مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ بہت سی ( جسمانی اور نفسیاتی ) بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں بڑھانے میں شیطان کا کلیدی کردار ہوتاہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے خون کی گردش میں تصرف کا اختیار دیا ہوا ہے ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے کہ ’’ شیطان بنی آدم میں خون کی طرح دوڑتا ہے ‘‘ ۔ [3] انہی علامات میں سے ایک غصہ بھی ہے ۔ غصہ : غصہ بہت سی بیماریوں کے جنم لینے کا باعث بنتاہے ۔ اس لئے جب ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت ونصیحت
[1] زاد المعاد 4/ 352 [2] زاد المعاد ،4/98 [3] متفق علیہ