کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 52
ترجمہ:’’ میں تو جہاں تک ہوسکے اصلاح ہی چاہتا ہوں‘‘ وصلی اللہ علی نبینا محمدوآلہ وسلم فصل اول : علاج کا طریقہ کار کسی بھی نوعیت کی بیماری کے علاج سے قبل چند ضروری قواعد اور اقدامات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوتاہے ، جن میں سے چند ایک ذیل میں درج کئے جاتے ہیں : (1) فراست سے کام لینا : فرمان باری تعالیٰ ہے :{ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ} [الحجر: 75] ترجمہ : ’’ بلا شبہ گہری نظر رکھنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ‘‘۔ فراست {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5] کے منازل ومراتب میں سے ایک اہم مرتبہ ہے ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ مدارج السالکین(2/284) ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’مجاہد کہتے ہیں ’’ متوسمین‘‘ سے مراد فہم وفراست رکھنے والے ہیں ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ دیکھنے والے مراد ہیں ۔ قتادہ کہتے ہیں ’’ عبرت ونصیحت حاصل کرنے والے ‘‘ جبکہ مقاتل کہتے ہیں ’’ غور وفکر کرنے والے مراد ہیں ‘‘۔ فراست سے مراد : ظاہری حالات وواقعات کی روشنی میں باطنی اخلاق وکردار کا اندازہ لگانا مراد ہے ۔[1] یہاں اسی فراست کے حوالے سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کرنا ضروری ہے وہ فرماتی ہیں :’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کے گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر نشان تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اس کو دم کرو، اس کو نظر لگ گئی ہے‘‘ ۔[2] ( حدیث میں لفظِ ’’سفعۃ‘‘وارد ہوا ہے )اس کی تعریف میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:’’ ابراہیم حربی فرماتے ہیں :’’ اس سے مراد چہرے کی سیاہی ہے ‘‘۔ اور اصمعی لکھتے ہیں ’’ سیاہی مائل زرد رنگ ‘‘ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ اس سے مراد پیلا پن ہے ‘‘ ۔ اور ابن قتیبہ لکھتے
[1] الفراسۃ للرازی ، ص 27 [2] بخاری، کتاب الطب ،10/171، مسلم ( 2197) کتاب السلام ۔