کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 47
اس حدیث نے قرآن کریم کے لفظ تنکح کے معنی متعین کر دئے کہ یہاں نکاح کا لفظ صرف عقدِ نکاح کے لئے نہیں ، بلکہ وطی کے معنی میں ہے۔ لیکن اصلاحی صاحب نے اس حدیث کو ردّ کر کے یہاں نکاح بمعنی عقد نکاح لیا ہے۔[1] تفسیر ’’ تدبّرِ قرآن‘‘ میں اور بھی بعض مثالیں ایسی ہیں جہاں واضح حدیث کو نظر انداز کر کے لغوی معنی یا اپنا خود ساختہ مفہوم مراد لیا ہے۔ شاید اس کی کچھ مزید تفصیل آگے آئے ۔ ہمارا یہاں صرف اصلاحی صاحب کی منکرینِ حدیث کی ہم نوائی کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اور وہ الحمدُ لِلّٰہ واضح ہے۔ مسلّمہ اصطلاحات کے مفہوم میں تبدیلی ، ان کا انکار ہے: اس تفصیل سے واضح ہے کہ مسلّمہ اصطلاحات کے مفہوم میں تبدیلی ، ان کا انکار ہے۔ اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو: ’’ ختمِ نبوّت ایک اصطلاح ہے جو قرآن مجید کے لفظ خاتم النبیین سے مستفاد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں ، آپ پر وحی و رسالت کا خاتمہ فرمادیا گیا ۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ اور یہ اصطلاح قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ پر مبنی ہے اور اہلِ سنّت کے ہاں مسلّم ہے۔ لیکن مرزائی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی مہر کے بغیر کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرزائے قادیانی پر آپ کی مہر لگی ہوئی ہے اس لئے مرزائے قادیان بھی (نعوذُ باللہ) سچا نبی ہے۔ ذرا سوچئے کہ ان مذکورہ شرعی اصطلاحات کی نئی تعبیر کرنے والے کیا صلوٰۃ ، زکوٰۃ اور ختم ِنبوت کے ماننے والے کہلائیں گے یا ان کے منکر؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی باشعور مسلمان ایسے لوگوں کو ان مسلّمات اسلامیہ کا ماننے والا نہیں کہے گا ، بلکہ یہی کہے گا کہ یہ نماز کے بھی منکر ہیں، زکوٰۃ کے بھی منکر ہیں اور ختم نبوت کے بھی منکر ہیں ۔ وعلیٰ ھٰذا القیاس دوسرے گمراہ فرقوں کی اپنی وضع کردہ اصطلاحات ہیں۔
[1] ملاحظہ ہو : تدبّرِ قرآن ، جلد اوّل ، ص493-495