کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 46
آسان ہو جاتا ہے ۔ منکرینِ حدیث قرآن کی آڑ میں یہی کچھ کر رہے ہیں ۔ اصلاحی صاحب کا رویّہ بالکل مذکورہ گروہوں کی طرح تو نہیں ہے لیکن ایک تو وہ خود بھی منکرینِ حدیث کی طرح حدیث کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہیں۔ دوسرے، اپنے خود ساختہ اور مزعومہ نظریات کے اثبات کے لئے احادیث کو نظر انداز کر کے عربی لغت ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح کم و بیش کے فرق کے ساتھ وہ منکرین حدیث ہی کے ہم نوا قرار پاتے ہیں۔ حدّرجم کی متفق علیہ اور متواتر روایات کا انکار کر کے اپنے خود ساختہ نظریہ رجم بطور تعزیر کے لئے انہوں نے بھی قرآن کے لفظ ’’تقتیل‘‘ سے بہ زعم خویش عربی گرامر اور لغت ہی کا سہارا لیا ہے ۔ ایک دوسری مثال : کسی عورت کو یکے بعد دیگرے تین طلاقیں مل جائیں ، یعنی وہ عورت مبتوتہ(طلاق بتّہ کی حامل ) ہو جائے تو ایسی عورت کا نکاح اب اسی خاوند سے دوبارہ نہیں ہوسکتا ۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے باقاعدہ ہمیشہ آباد رہنے کی نیّت سے نکاح کرے ، پھر اتفاقیہ اس کو وہاں سے طلاق مل جائے یا زوج ثانی فوت ہو جائے تو اس کا دوبارہ نکاح پہلے خاوند سے کرنا جائز ہوگا۔ اس کے لئے قرآن کے الفاظ یہ ہیں : [حَتّیٰ تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ]( البقرہ-230) ’’یہاں تک کہ وہ زوج اوّل کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرے‘‘۔ اس آیت میں نکاح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی لغت میں نکاح کے دو معنی ہیں ۔ پہلا عقد نکاح ۔ دوسرا ، وطی ( ہم بستری) کرنا ۔ حدیث کی رو سے یہاں نکاح بمعنی وطی (ہم بستری کرنا) ہے۔ حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دے دی، ان کی بیوی نے ایک دوسرے شخص (عبدالرّحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ ) سے شادی کر لی۔ لیکن عورت ان سے مطمئن نہ ہو سکی اور ان کے درمیان (بغیر ہم بستری کے) جدائی ہو گئی ، وہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور صورت حال سے آگاہ فرمایا، آپ نے اس کی گفتگو سے اندازہ فرما لیا کہ یہ عورت اپنے پہلے خاوند ہی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔ لیکن آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ جب تک دونوں ایک دوسرے کا مزہ نہ چکھ لیں ، عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں:"لا حتی یذوق عسیلتک و تذوق عسیلتہ"[1]
[1] صحیح بخاری ، الطلاق، حدیث: 5260