کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 44
قرآنی حقائق کوجن کا صحیح تعین احادیث سے ہوتا ہے ، بری طرح مسخ کر کے اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیار کیا ہے۔اور یہ صرف پرویز ہی نہیں اور بھی بعض ’’اہلِ علم ‘‘ نے اسی منہج پر چلتے ہوئے قرآنی حقائق اور مسلّمات اسلامیہ سے انحراف کیا ہے ۔ ایک ایسے ہی پرویز و غامدی کے ہم نواپروفیسر خورشید عالم صاحب ہیں ۔ ان صاحب نے ’’ لغات قرآن اور عورت کی شخصیت ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں عورت کے بارے میں ان تمام اسلامی تصورات کی نفی کی گئی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور چودہ سو سال سے امّتِ مسلمہ میں مسلّم چلے آرہے ہیں مثلاً عورت کو پردے میں رکھنا ، اس کو زندہ درگور کر دینا ہے۔ مرد اور عورت میں کامل مساوات ہے۔ ہر وہ کام جو مرد کرتا ہے عورت بھی کر سکتی ہے اس لئے عورت کا مردوں کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں شانہ بشانہ کام کرنا نہ صرف جائزہے بلکہ ملکی ترقی کے لئے نا گزیر ہے۔ مرد و عورت کی گواہی برابر ہے اور ہر معاملے میں اس کی گواہی مقبول ہے۔ ملکہ سبا ایک مثالی عورت تھی اور اس کی طرح عورت حکومت کی سربراہ بن سکتی ہے۔ حور عین ، یہ اہلِ جنت کی بیویاں نہیں بلکہ ان کی ساتھی اور ہم نشیں ہو ں گی اور بہن بھائیوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھی ہوں گی۔اور یہ جس طرح مردوں کے لئے ہوں گی ، عورتوں کے لئے بھی ہوں گی ۔ مخلوط تعلیم جائز ہے۔ حضرت سارہ ، حضرت مریم ، حضرت آسیہ کی بابت ان کا رجحان ان کی نبوت کی طرف ہے ۔ مرد و عورت کا دائرہ کار الگ الگ نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک فاضل مصنفہ پروفیسر ثریا بتول علوی (بنت مولانا عبد الرّحمٰن کیلانی رحمہ اللہ) فرماتی ہیں: ’’ اس طرح یہ کتاب عربی لغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔اگر اپوائی