کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 43
والے کا قانون ربوبیت ، خود متوازن راہ پر چل رہا ہے ‘‘ اس کے پیچھے پیچھے تم بھی چلتے جاؤ۔ مُصلِّی، اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو گھوڑا دوڑ میں پہلے گھوڑے کے بالکل پیچھے پیچھے ہو، جو اِدھر اُدھر کی راہوں میں نکل جائے وہ مُصلِّی نہیں‘‘[1] یہ اقتباس لغت کے بَل پر تفسیر کرنے کا شاہکار ہے۔ پہلے اِنّ ربّی علیٰ صراطٍ مُّستقیم کا سیدھا ترجمہ: (میرا رب سیدھے راستے پر ہے ) چھوڑ کر ’’لغوی ترجمہ ‘‘ملاحظہ ہو:’’تیرے نشونما دینے والے کا قانون ربوبیت ، خود متوازن راہ پر چل رہا ہے‘‘ یہ ترجمہ لغوی ہے یا نہیں ؟ تاہم فکر پرویزی یا حیلہ پرویزی کا پورے طور پر غماز ہے کیونکہ اسی پرویزی مفہوم پر ’’الصلوٰۃ ‘‘ کا لغوی مفہوم متفرع ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہے : ’’اس کے پیچھے پیچھے تم بھی چلتے جائو‘‘ ، اس کے بعد حاصل مراد ملاحظہ ہو: ’’ مُصلِّی، اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو گھوڑا دوڑ میں پہلے گھوڑے کے بالکل پیچھے پیچھے ہو‘‘، لیکن مُصلِّی کے معنی (نماز پڑھنے والا) نہیں بلکہ پیچھے پیچھے چلنے والے گھوڑے کے ہیں۔ اور جس’’قانون ربوبیت ‘‘ کے پیچھے پیچھے چلنا ہے ، وہ کیا ہے؟ کمیونسٹ نظام ، یا سوشلزم ہوگااور مُصلِّی (نماز پڑہنے والے ) سے مراد ہے جو اس نظام کے پیچھے پیچھے چلے گا۔ یہ قرآن کی لغوی تفسیر کا کیسا شاہکار نمونہ ہے۔ پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی جوبات کی خدا کی قسم لاجواب کی زکوٰۃ کے بارے میں بھی پرویزیوں کی لغوی تفسیر ملاحظہ ہو: ’’ایتائے زکوٰۃ ‘‘ اسلامی حکومت کا بنیادی فریضہ ہے۔ یعنی تمام افراد معاشرہ کو سامان نشوو نما بہم پہنچانا ۔ اس مقصد کے پیشِ نظر اس کی تمام آمدنی ’’ زکوٰۃ یعنی ذریعہ ‘‘ نشوونما کہلا سکتی ہے‘‘[2] یعنی ایتائے زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب کی ذمّہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ گویا نماز کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی سے بھی فراغت ۔ مزید ملاحظہ فرمایئے: ’’ ہمارے ہاں ’’ایتائے زکوٰۃ ‘‘ کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ زکوٰۃ دیں گے (یعنی لوگ زکوٰۃ دیںگے ) اور زکوٰۃ سے مراد لیا جاتا ہے کہ جمع شدہ مال و دولت سے سال کے بعد اڑھائی فیصد روپیہ نکال کر غریبوں کو دے دینا ۔۔۔‘‘ ایتائے زکوٰۃ کا یہ مفہوم قرآنی نہیں ‘‘[3] اس طرح غلام احمد پرویز نے احادیث اور مسلّماتِ اسلامیہ کو نظر انداز کر کے لغت کے نام پر
[1] سلیم کے نام ۱۵۳/۱۵۱ [2] طلوع اسلام ، جولائی 1966ء ، ص62 [3] طلوعِ اسلام ، فروری 1971ء -ص39 -ستمبر 1983 ء ، ص36