کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 41
دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ‘‘۔[1] اور ان سنتوں کی تعداد بھی انہوں نے متعین فرمادی ہے کہ وہ صرف 27ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی فرما دیا ہے کہ ’’سنت یہی ہے ۔ ان کے علاوہ یعنی قرآن اور ۲۷ سنتوں کے علاوہ ) کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے‘‘ (حوالہ مذکورہ) کیسا ادعائی انداز ہے اور کتنا بڑا دعویٰ ہے کہ دین صرف یہ 27سنتیں ہیں ۔ اس شوخ چشمانہ جسا رت کا حوصلہ ان صاحب کے اندر کس نے پیدا کیا؟ صرف سنت کی اپنی گھڑی ہوئی تعریف نے۔ اس طرح ان کےپیش رو اور "امام استاذ " مولانا امین احسن اصلاحی نے حدیث اور سنت کو الگ الگ کر کے سارے ذخیرہ احادیث کو غیر محفوظ اور ایک دفتر بے معنی قرار دے دیا ۔اور اس کی وجہ بھی ان کا علمی پندار اور زعم ہمہ دانی ، نیز حدیث و سنت کے درمیان تفریق کرنا ہے۔ جب کہ محدثین کے نزدیک یہ دونوں لفظ مترادف المعنی ہیں اور دونوں سے مراد اقوال و افعال اور تقریرات رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ بہر حال یہ فراہی گروہ اور اس طرح کے دیگر گروہ ، جو قرآن کو حدیث کی روشنی میں سمجھنے کے قائل نہیں ، بلکہ لغت یا اپنے خود ساختہ نظریات کی روشنی میں قرآن کی من مانی تفسیر کرنے کے قائل ہیں ۔ یہ سارے گروہ حدیث کے بارے میں ذہنی تحفظات رکھتے ہیں ، اس لئے بالکلیہ حدیث کو ردّ نہیں کرتے بلکہ اپنے مزعومات کے مطابق حدیث کو مانتے یا اس کو ردّ کرتے ہیں۔ ردّ و قبولِ حدیث کے ان مسلمہ اصولوں کو نہیں مانتے جو محدثین نے وضع کئے اور پوری امت انہی کی روشنی میں حدیث کو قبول یا ردّ کرتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی گروہ کلی طور پر حدیث کا منکر نہیں ہے۔ اگر ایسا
[1] میزان -از جاوید احمد غامدی، ص 14 ، طبع سوم ، 2008