کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 40
کردیتے ہیں۔جب کہ مسلم امّہ کے علماء اور ائمہ احدیث ، ہر اس حدیث کو صحیح اور قابل حجت سمجھتے ہیں جو محدثین کے بنائے ہوئے نقد و تحقیقِ حدیث کے اصول اور ضوابط جرح و تعدیل کی روشنی میں صحیح قرار پاتی ہے یا قرار پائی ہے اور جو اس کے برعکس ہیں وہ ضعیف ، منکر یا موضوع ہیں اور وہ نا قابلِ حجت ہیں۔علاوہ ازیں علمائے امّت اور ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی بھی صحیح حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے اور نہ عقل کے خلاف۔ صحیح حدیث کو خلافِ قرآن یا خلاف عقل قرار دینا ، ہر باطل گروہ کا شیوہ رہا ہے اورہے، کیونکہ اس کے بغیر ان کے باطل نظریات کا اثبات ممکن نہیں۔ جیسے حدرجم کی روایات ہیں ۔یہ متواتر بھی ہیں کہ تین درجن صحابہ سے مروی ہیں ۔ اور ان کی صحت پر پوری امّت کا اجماع و اتفاق بھی ہے۔ لیکن ایک گروہ اپنے خود ساختہ نظریہ رجم کے اثبات کےلئے ان روایات کو خلاف قرآن باور کرا کے ردّ کر رہا ہے۔[1] اس طرح حدیث ،ان باطل نظریات کے حامل گروہوں کے ہاں تختہ مشقِ ستم بنی ہوئی ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو حدیث کا حمایتی اور حدیث کا ماننے والا باور کراتے ہیں۔ لیکن حدیث کو ردّ کرنے کے لئے حدیث کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس سے حدیث از خودمردود قرار پا جاتی ہے۔ جیسے اس گروہ کے بزرگ نے کہا کہ: حدیث اور سنت دو الگ الگ چیزیں ہیں ، سنت تو امّت کا وہ تواتر عملی ہے جس کی رو سے نماز وغیرہ عبادات کے طریقے مسلّمہ چلے آ رہے ہیں اور یہ قرآن کی طرح حجت ہیں اور حدیث کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال اور تقریرات۔ لیکن احادیث چونکہ ظنی (یعنی مشکوک ) ہیں اس لئے یہ غیر محفوظ اور نا قابلِ اعتبار ہیں ۔[2] یوں سنت و حدیث کی الگ الگ تعریف کر کے سارے ذخیرہ حدیث کورد کر دیا ۔ اس لئے ان صاحب نے صحیحین کی بیسیوں روایات کو مردود قرار دے دیا ہے۔ ان صاحب کے شاگرد نے نہلے پر دھیلا مارتے ہوئے اس میں اور اضافہ کیا اور فرمایاکہ’’ سنت
[1] اس کی پوری تفصیل اور مدلل ردّ کے لئے ملاحظہ ہو، راقم کی دو کتابیں ــ"حدرجم کی شرعی حیثیت" اور "فتنہ غامدیت"۔ [2] دیکھئے ۔ "مبادئ تدبرحدیث ـ"اور مقدمہ تفسیر تدبر قرآن