کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 4
سولہ مہینے چھوٹے ہیں۔دعاہے اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ قائم رکھے اور یہ چھوٹی بڑی ہر آفت سے محفوظ رہے اور حافظ عبدالحمید ازہر کی زندگی صحت وعافیت کے ساتھ دراز ہو اور لوگ ان کی خطابتی اور تحریری مساعی سے مستفید ہوتے رہیں،آمین۔ عبدالحمیدازہر کچھ بڑے ہوئے تو گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل کرادیے گئے۔اسکول کی تعلیم کے دوران ہی ناطرہ قرآن مجید پڑھنے کے بعد قصور کی جامع مسجد فریدیہ میں قاری نور احمد کھرل سے(جو قاری اظہاراحمد تھانوی کے شاگرد تھے)حفظِ قرآن کا آغاز کیا اور اللہ نے ان کوحفظ وتجوید کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا۔ 1965ء میں میٹرک پاس کیا ۔انہی دنوں مولانا محمد اسحاق گوہڑوی رحمانی اپنے دوست شیخ عبدالکریم کی تعزیت کے لیے (جوایک حادثے میں وفات پاگئے تھے)قصور تشریف لائے۔ حافظ عبدالحمیدازہر کے دادا اور نانا انہیں مولاناموصوف کے پاس لے گئے اور آئندہ تعلیم کے لیے رائے طلب کی۔ اس رائے کے نتیجے میں جولائی 1965ء میں عبدالحمید ازہر کو ان کے ماموں مولانا عبدالعظیم انصاری اپنے ساتھ چینیاں والی مسجد (لاہور) لے آئے اور وہاں کے دارالحدیث میں داخل کرادیے گئے۔ جب چینیاں والی مسجد میں عبدالحمید ازہر کی تعلیم کا آغاز ہوا ،اس وقت مولانا محمد اسحاق رحمانی وہاں صدر مدرس تھے اور مولانا عبدالعزیز نائب مدرس اور ہم سبق طلباء میں مولانا محموداحمد بن حافظ عبدالغفور(مریدکے)اور مولانا محمد عثمان (حال مدرس جامعہ اہل حدیث لاہور) شامل تھے۔ اس سے اگلے سال بہ طور نائب مدرس وہاں مولانا عبدالخالق قدوسی شہید کا تقرر ہوا۔صرف ونحو کی بعض کتابیں،ترجمہ قرآن اور بلوغ المرام مولانا محمد اسحاق رحمانی سے پڑھنے کاشرف حاصل ہوا۔مشکوٰۃ شریف اور عربی ادب کی ابتدائی کتابیں مولاعبدالخالق قدوسی سے پڑھیں۔ چینیاں والی مسجد کےمدرسے میں کچھ کمزوری کے اسباب ابھرےتو حافظ عبدالحمیدازہر گوجراں والا کی جامعہ محمدیہ چلے گئے۔وہاں مولاناعبدالحمیدہزاروی سے سنن نسائی،مولانا جمعہ خاں سے