کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 174
انہیں سمجھ آہی جاتی ہے۔ آخری تقریب میں عبارت بھی میں نے پڑھی تھی۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، ان کا نام قاری سیف اللہ تھا ۔ وہ کہنے لگے کہ بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوں گے آپ لوگ مجھے اجازت دیں، میں اچھے مخارج کے ساتھ حدیث کے الفاظ پڑھوں گا۔ ساتھیوں نے کہا کہ سارا سال تو آپ نے پڑھا نہیں، اب آپ کہتے ہیں کہ میں پڑھوں گا ،الحمدللہ وہ قرعہ میرے نام ہی نکلا۔ بہرحال پھر سنہ 69 ء میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی فیصل آباد میں ، اسی سال ادارہ علوم اثریہ قائم ہوا تھا، جو صرف فارغ التحصیل طلباء کے لئے تخصص کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ادارہ کا بھی پہلا ہی سال تھا، اس کا نام مولانا حنیف ندوی صاحب رحمہ اللہ نے رکھا ، اس سے پہلے کسی نے اثری نام استعمال نہیں کیا، بڑے دور اندیش آدمی تھے۔ اس ادارے میں۔ صرف پانچ طالب علم رکھتے تھے۔ اس ادارے کے پہلے سال میں، خالد سیف اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ،مولانا عبدالحمید بھکر، مولانا محمد جہلمی،انہیں کے عزیز محمد شفیع ،محبت سے انہیں ہم مفتی محمد شفیع کہا کرتے تھے ،وہ جہلم میں پڑھاتے تھے۔ ایک ہمارے ساتھی محمود الحسن صاحب تھے۔ جوکہ جامعہ ستاریہ میں شیخ الحدیث ہیں ،لیکن ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی، پیٹ کا مسئلہ رہتا تھا۔ڈیڑھ سال کے بعد واپس آگئے۔ دو سال کا یہ کورس ہوتا تھا۔ جب گوجرانوالہ سے فارغ ہوکر آیاتو یہاں ادارہ علوم اثریہ میں مولانا اسحاق چیمہ صاحب رحمہ اللہ پڑھاتے تھے، مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ ( خانوآنہ جھال والے)النھایۃ پڑھاتے تھے۔مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ بڑے حافظ تھے۔ اور ان سے پڑھنے والوں میں مولانا عبدالرحمان سلفی صاحب بھی ہیں انہوں نے دہلی میں ان سے پڑھا ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ کا استحضار اس قدر تھا کہ جب حدیث کی تلاش کی ضرورت آتی تو مشکوٰۃ سے کبھی بھی فہرست دیکھ کر حدیث نہیں نکالی۔ان کے ذہن میں ہوتا تھا کہ یہ روایت