کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 172
مطلوبہ عمر سے میری عمر بڑھ گئی ہے اور وجہ یہی لکھی کہ میں اس وقت مسلمان نہیں تھا، لیکن اب تعلیم مکمل کرناچاہتا ہوں اور مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ مولانا کے اس عذر کی وجہ سے انہیں داخلہ مل گیا تھا کہ ان کا عذر معقول ہے۔ وہاں سے آکر پھر جامعہ سلفیہ میں پڑھانا شروع کردیا۔ بہرحال سنہ 66ء تک جامعہ سلفیہ میں پڑھا اور ان تین سالوں میں مذکورہ کتابیں پڑھیں۔ سنہ 67ء میں حافظ محمد بنیامین طور صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ سلفیہ سے استعفیٰ دےدیا تو ہم لوگ ایک ہی کلاس کےچھ،سات ساتھی تھے۔ جن میں مولوی اکرم جمیل جہلم کے شیخ الحدیث ہیں،میں اور مولانا محمد عبداللہ جھنگ کے تھے۔ ہم انہیں خطیب صاحب کہتے تھے۔ہم نے حافظ صاحب سے عرض کیا کہ ہم آپ سے پڑھنا چاہتے ہیں ۔ ان کا گاؤں جھوک دادو کے پاس ایک گاؤں کٹو چار چاں، وہاں تاندلیانوالہ کے پاس طور برادری کے چار گاؤں ہیں۔ کٹو کے لوگوں نے بڑا اصرار کیا اور کہا آپ اور یہ پوری کلاس ہمارے پاس لے آئیں ہم ہر اعتبار سے خدمت کریں گے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ایسا ممکن ہے۔ پھر سنہ ء میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ چلا گیا وہاں میں نے آخری سال پڑھا۔وہاں حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ بخاری پڑھاتے تھے۔ اور مولانا ابولبرکات احمد رحمہ اللہ اس ادارے کے منتظم تھے۔( یہ حافظ محمد گوندلوی صاحب رحمہ اللہ کے چہیتے شاگردوں میں سے تھے۔ حافظ محمد گوندلوی صاحب رحمہ اللہ مدراس پڑھانے کے لئے گئے تھے۔تو واپسی میں یہ (ابو البرکات احمد رحمہ اللہ )ساتھ ہی آگئے تھے کہ میں نے آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے) حافظ صاحب رحمہ اللہ ڈیڑھ دو گھنٹے صحیح بخاری کا درس دیتے تھے۔ پھر وہ لیٹ جاتے تھے۔ سارے طالب علم کوئی ہاتھ دبا رہا ہوتا کوئی کندھے ، کوئی پاؤں ۔ مولانا ابو البرکات احمد رحمہ اللہ کا کوئی پیڑیڈ خالی ہوتا تو وہ بھی نیچے آکر طالب علموں کے ساتھ مل کر دبایا کرتے تھے۔ بڑی خدمت اور احترام کرتے تھے۔ جیسے باپ کے سامنے لاڈ پیار کے ساتھ بیٹا بات کرتا ہے۔ میں 68ء میں وہاں پڑھتا تھا تو وہ مسجد میں جمعہ پڑھاتے تھے، دس گیارہ ماہ تک ہم نے جمعہ