کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 171
تھا یہاں فیصل آباد کےقریب نورپور میں قصبہ تھا۔ وہاں والد صاحب کی ہمشیرہ رہتی تھی۔ اس لئے جامعہ سلفیہ میں آنے کا اتفاق ہوا کہ وہاں رہنے کی سہولت مل جائے گی۔ ورنہ اس وقت میں اہل حدیث بھی نہیں تھا بلکہ خاندان میں بھی کوئی اہل حدیث نہیں تھا۔ حتی کہ جامعہ سلفیہ میں دو سال تک میں اہل حدیث نہیں ہوا اور بغیر رفع الیدین کے نمازیں پڑھتا تھا۔ ایک دفعہ حافظ بنیامین صاحب رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ جب میں اوپر ہاتھ باندھتا ہوں تو بوجھ پڑتا ہے یہاں ہاتھ باندھنامشکل ہے ، حافظ صاحب رحمہ اللہ کہتے تھے کہ دل میں نفاق ہے اس لئے مشکل ہوتی ہے اور یہ بوجھ پڑتا ہے،جب یہ نفاق نکل جائے گا تو پھر بوجھ محسوس نہیں ہوگا۔ خیر جامعہ سلفیہ میں داخلے کے وقت انٹرویو ہوا تو انٹرویو مولانا بنیامین اور مولانا علی محمد سلفی صاحب ; نے لیا، انہوں نے پوچھا : ہاں بھئی!کیا کیا پڑھ کر آئے ہو؟ میں نے کہا کہ کافیہ پڑھی ہے، ہدایۃ النحو،تیسیر المنطق پڑھی ہے،ابھی میں نے تیسیر المنطق کا لفظ بولا تو حافظ بنیامین صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ تیسیر کون سا باب ہے؟ میں نے کہا کہ تفعیل ۔ بس اسی پر انہوں نے کہا کہ اسے تیسری میں داخلہ دے دو۔ یہاں تین سال تک تعلیم حاصل کی، اور ابتدائی دو سال تک حنفی رہا، غیر اہل حدیث ہونے کے باوجود حافظ بنیامین رحمہ اللہ کا کھانا لانا ،ان کے برتن صاف کرنا ،ان کی چائے بناکر دینا۔ان کی خدمت کرنا میرا معمول تھا۔ جامعہ سلفیہ میں ترمذی ، مختصر المعانی، شرح وقایۃ، قطبی، وغیرہ پڑھیں ۔ مولانا عبداللہ امجد چھتو ی حفظہ اللہ سے مختصر المعانی پڑھی۔( اثری صاحب کے اساتذہ میں سے یہی حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر خدمت حدیث کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین) مولانا عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ سے سنن نسائی، مولانا صادق خلیل صاحب رحمہ اللہ سے جامع ترمذی اور مشکوۃ مولانا علی محمد صاحب رحمہ اللہ سے پڑھی تھی ۔ ،مولانا علی محمد رحمہ اللہ جھوک دادو کے تھے۔ پاکستان جس وقت بنا ہے ،اس وقت یہ غیر مسلم گھرانہ تھا ،ان کے بڑوں نے یہی سوچا کہ ہمارا وہاں جانا مشکل ہے ۔پھریہ مسلمان ہوگئے مولانا ابھی چھوٹے تھے۔جب مدینہ یونیورسٹی شروع ہوئی تو ان کی عمر زیادہ ہوگئی تھی ،انہوں نے خط لکھا کہ مدینہ یونیورسٹی کی