کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 17
ایک مقام پر فرمایا: [سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ] [الحديد: 21] ’’ تم اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کو حاصل کرنے کےلئے ایک دوسرے سے آگے نکل جاؤ جس کی وسعت آسمان اور زمین کے عرض کے برابر ہے۔ وہ ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ دوسری دلیل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کا تذکرہ قرآن نے بیان کیا اور جنت کے وجود کا بھی اثبات کیا ۔ [وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی 13۝ۙ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی 14؀ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی 15؀ۭ ] [النجم: 13] ’’اور ایک مرتبہ اور بھی اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے اس (جبریل) کو ،سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، جس کے پاس یہی جنت الماوٰی ہے۔‘‘ تیسری دلیل:  فرعونیوں کو قبر میں دئیے جانے والے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: [اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْہَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ] [المومن: 46] ’’وہ صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔‘‘ قرآن مجید کی ان تمام آیات اور اس مفہوم کی بکثرت آیات سے جنت و جہنم کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اور ان آیات کو اپنی عقل سے سمجھنے کی بجائےپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میںاور سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھنا چاہئے۔ اور اگر کوئی شخص اس اساس کو چھوڑ دے اور اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائے گا،یقیناً یہ عقلانیت اسے بڑا جری بنادے گی اور وہ مسلّمہ عقائد کو بوجھ سمجھنے لگے گا۔ بہرحال قرآن مجید سے اس اہم عقیدے کے اثبات کے بعد اب آئیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی