کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 149
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی علم وفضل کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے تمام علوم اسلامیہ پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی۔ تقریر میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا عوامی تقریر بھی کر لیتے تھے اور علمی تقریر بھی، قدرت کی طرف سے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ٹھوس دور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے برصغیر کی ہر مذہبی ودینی،قومی وملی اور سیاسی تحریکات سے انہیںمکمل آگاہی حاصل تھی اور ہر تحریک کے قیام کے پس منظر سے واقف تھے اور ہر تحریک کے بارے میں اپنی ایک ناقدانہ رائے رکھتے تھے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مولانا سلفی کو بہت زیادہ شغف تھا حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مرحوم ومغفور نے ایک بار راقم سے فرمایا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت ونصرت کے سلسلہ میں علمائے اہلحدیث میں شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہما اللہ بہت زیادہ سخت تھے یہ دونوں علمائے کرام حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے جب بھی کسی رسالہ یا اخبار میں حدیث کے مخالفت میں کوئی مضمون شائع ہوتا یا کوئی کتاب منظر عام پر آتی جس میںحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید ہوتی تو مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ فوراً اس کانوٹس لیتے اور اخبار اہلحدیث میں اس کا جواب دیتے مولانا محمد اسمعیل سلفی بھی حدیث سے بہت زیادہ شغف رکھتے تھے اور حدیث کے معاملہ میںمعمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ آپ بھی جب کوئی مضمون یا کتاب میں حدیث کی مخالفت میں کوئی تنقیدی مضمون دیکھتے تو فوراً ان کا علم حرکت میں آجاتا اور ہفت روزہ الاعتصام میں مضمون کا جواب دیتے اور اب ان دونوں علماء کی اقتداء میں راقم (عطاء اللہ حنیف) اور حافظ عبد القادر روپڑی بھی حدیث کے سلسلہ میںمعمولی سی مداہنت برداشت نہیں کرتے ہم دونوں بھی تحریر وتقریر کے ذریعہ حدیث کی حمایت ونصرت اور مدافعت میں