کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 140
’’يا بني جالس العلماء وزاحمہم برکبتيک فإن اللہ يحيي القلوب بنور الحکمۃ کما يحيي الأرض الميتۃ بوابل السماء۔‘[1] ’’اے میرے پیارے بیٹے!علماکی صحبت کو پابندی کے ساتھ اختیار کرو،ان کی مصاحبت سے اللہ پاک مردہ دلوں کو اس طرح زندہ کرتاہے جس طرح وہ موسلادھار بارش سے مردہ زمین کو زندگی بخشتاہے۔‘‘ (4) علماکو طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنائیں ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو برسربازر نہ اچھالیں،بلکہ خلوت میں انہیں احسن طریقے سے آگاہ کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کریں،امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’من وعظ أخاہ سرا فقد نصحہ وزانہ ومن نصح علانيۃ فقد فضحہ وخانہ[2] ’’جس نے اپنے بھائی کو علیحدگی میں سمجھایا تو اس نے اپنے بھائی کی خیر خواہی کی، اس کو زینت بخشی، اور جس نے سر عام سمجھایا تو اس نے اپنے بھائی کورُسواکیا اور اس کے ساتھ خیانت کی۔‘‘ یہ علما انبیاء کے وارث ہیں ،اور اللہ تعالی کے اولیاء میں سے ہیں اورایک حدیث قدسی میں ہے: ’’ من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب‘‘[3] ’’جوبھی میرے کسی دوست سے دشمنی رکھتاہے میں اس سے اعلانِ جنگ کرتاہوں‘‘۔ اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’ولی‘‘ کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’المراد بولی اللہ العالم باللہ المواظب علی طاعتہ‘[4]
[1] الغنية فهرست شيوخ القاضي عياض47/1۔ [2] حلية الأولياء (9/140)، الآداب الشرعية لابن المفلح صـ358۔ [3] صحیح بخاري: 6502۔ [4] فتح الباري11/342