کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 14
حقیقت ہم آج سمجھ نہیں سکتے۔‘‘[1] پرویز نے اپنی کتاب جہانِ فردا میں عنوان قائم کیا ’’ جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے ‘‘[2] اور پھر اگلے ہی عنوان ’’ جہنم کی تفاصیل ‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے، لیکن قرآنِ کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ غیر محسوس، مجرد حقائق کو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے۔‘‘ [3] اور لفظ جنت کے لغوی مفہوم کو بیان کرنے کے بعد اپنے عقلانی گھوڑے دوڑانا شروع کرتاہے اورجنت کے لفظ کو ایک تشبیہ اور استعارہ قرار دیتے ہوئے لکھتاہے: ’’ قرآن کریم نے اسی لئے کامیاب زندگی کو باغ (جنت) سے تشبیہ دی ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کریم نے انسانی زندگی کے تین گوشوں یا تین مراحل کا ذکر کیا ہے،مرحلہ اوّل انسان کی اس زندگی سے متعلق ہے جب ہنوز اس کی تمدنی زندگی کاآغاز نہیں ہوا تھا ، اس وقت سامانِ رزق کی فراوانی تھی ، اور انسان’’ میری اور تیری‘‘ کی تمیز سے نا آشناتھا۔یہ وہ دور تھا جس میں انسانی لغت میں ’’ ملکیت‘‘کا لفظ نہیں آیا تھا ، تمتع (استعمال یا فائدہ اٹھانے) کا تصور تھا، قرآنِ کریم نے اسے ’’جنتِ آدم ‘‘ کے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد اس کی تمدنی زندگی شروع ہوئی تو انسانوں کے مفادات میں باہمی تصادم واقع ہوا جس سے پہلی زندگی کادور ختم ہوگیا ، اس کے لئے اسےخدا کی طرف سے (بوساطت حضرات انبیائےکرام ) راہنمائی دی گئی تاکہ یہ اپنی تمدنی زندگی کو بھی جنت ارضی بنالے، یہ جنت ارضی، قرآنی معاشرے کا دوسرا نام ہےجس میں نہ صرف سامانِ زیست کی فراوانی ہوگی بلکہ انسانی ذات کی نشونما بھی ہوتی چلی جائے گی ۔ موت کے بعد ، طبیعی زندگی کا ساز و سامان تو یہاں رہ جائے گا اور انسانی ذات آگے جائے گی ، جس ذات کی نشوونما ہو چکی ہوگی وہ زندگی کی بلند ارتقائی منزل میں داخل ہوجائے گی ، قرآن کریم نے اسے بھی جنت کی زندگی کہہ کر پکارا ہے۔ قرآن کریم میں’’ جنتِ آدم ‘‘ کا ذکر تو الگ آتا ہے ، لیکن اس کے بعد ، صحیح انسانی معاشرہ اور آخرت کی کامیاب زندگی (یعنی جنتِ ارضی اور جنتِ اخروی ) کا
[1] لغات القرآن:1/449، مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام لاہور [2] دیکھئے جہانِ فردا: صفحہ 231 [3] جہانِ فردا: ص 235