کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 137
ہیں،حزبیوں (خصوصاًان میں وہ لوگ جن کامنہج تکفیر والاہے)کی کتب کامطالعہ کیاجائے تویہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نےعلمائے ربانیین کے خلاف کس قسم کی غلیظ زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ وبا ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے،چارپانچ کتابوں کورٹنے اور انٹر نیٹ کی دنیا سے علم حاصل کرنے والاخود کو بڑاعالم سمجھتا ہے،اور فتوی جیسے اہم اور نازک منصب کو اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں پر خوب گولہ باری کرتاہے،اہل علم کی اہانت کرتاہے،جو اس ’’نام نہادمفتی‘‘ کی رائے سے الگ کوئی رائے رکھتاہےتو اسےخوب ہدف تنقیدبنایاجاتاہے،میڈیائی علم اور وسائل سے حاصل شدہ مواد کی بنیادپر فتوی بازی کا سلسلہ جاری ہے جس کےنتیجے میںگمراہی اور حزبیت جنم لےرہی ہے۔ جبکہ سلف صالحین فتوی کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے،ان کے احتیاط کایہ عالم تھاکہ فتوی کانام سنتےہی چہرے کارنگ فق ہوجاتاتھا۔ جلیل القدرتابعی عبدالرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أدرکت عشرین ومائۃ من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما منھم رجل یسأل عن شیء إلاودّ أن أخاہ کفاہ۔۔۔۔۔ یسأل أحدھم عن المسألۃ فیردھاإلیٰ ھذا وھذاإلیٰ ھذا حتیٰ ترجع إلیٰ الأول‘‘[1] ’’میں نے ایک سوبیس صحابہ کوپایا ان میں سے کسی سے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کیاجاتاتووہ یہی چاہتاکہ اس بارے میں اس کاجواب اس کابھائی دے،اورکبھی ان سے کوئی سوال ہوتا تووہ اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرتا اوروہ تیسرے کی طرف اشارہ کرتایہاں تک کہ وہ سوال پہلے ساتھی کی طرف لوٹ آتا۔‘‘ آج کل کے یہ نام نہاد مفتیان کرام جو بات بات پر فتوی تیارکیے بیٹھے ہوتے ہیں انہیںنہ دین میں تفقہ ہوتاہے اور نہ اللہ کاڈر اورخوف ان کے اس رویے پر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تبصرہ
[1] سنن دارمی1\248:137،جامع بیان العلم وفضله2\274