کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 126
تھیں، اور ان کی بیٹیوں کا زیور تقریباً پچاس ہزار [کے برابر]تھا‘‘[1] اسی طرح یحیی بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’میں نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے زیورات کی زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ’’میں نے کسی کو زیورات کی زکوٰۃ ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا اور میرا ایک ہار تھا جس کی قیمت 1200 ہوگی میں نے کبھی اس کی زکوٰۃ نہیں دی‘‘[2] اور ایسے ہی حسن کہتے ہیں:’’ہمارے علم کے مطابق کسی بھی خلیفہ راشد نے یہ نہیں کہا کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے‘‘[3] بلکہ الباجی رحمہ اللہ نے زیورات پر زکوٰۃ نہ ہونے کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’یہی موقف تمام صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا‘‘[4] جبکہ زیورات میں زکوٰۃ فرض ہونے کا موقف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ چنانچہ ابو عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہمارے ہاں زیورات پر زکوٰۃ سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف ابن مسعودرضی اللہ عنہ اس کے قائل ہیں‘‘[5] اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ :’’زکوٰۃ کےلیے اصول یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو ذاتی استعمال کےلیے ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ ہر ایسا مال جس پر حقیقت میں زکوٰۃ لاگو ہوتی ہو لیکن جب اسے ذاتی استعمال کےلیےرکھا جائے تو پھر اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، مثال کے طور پر : کام کاج کےلیے رکھے ہوئے اونٹ اور بیل
[1] الأموال از: ابن زنجویہ (3/ 979) [2] الأموال از: ابن زنجویہ (3/ 979) اور " مصنف ابن ابی شیبہ" (2/ 383) [3] مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 383) [4] المنتقى شرح الموطأ (2/ 107) [5] الأموال از: قاسم بن سلام (صفحہ: 544)