کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 124
اور جن اہل علم نے ان روایات کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے اس کے معنی و مفہوم کی ایسی توجیہ پیش کی ہے کہ ظاہری مطلب تبدیل ہو جائے، چنانچہ اس بارے میں بھی بہت سی آراء ہیں، جوکہ تمام کی تمام کمزور اور تکلف سے بھر پور ہیں۔ چنانچہ ان توجیہات میں یہ کہا گیا ہے کہ:’’یہ اس وقت کی بات ہے جب خواتین پر سونا پہننا حرام تھا‘‘ اگر یہ بات درست ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں زکوٰۃ کا حکم دینے سے پہلے پہننے سے ہی منع کر دیتے ۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے:’’یہاں زکوٰۃ سے مراد نفلی صدقہ ہے، فرض زکوٰۃ مراد نہیں ہے، یا پھر زکوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ انہیں عاریۃً پہننے کےلیے دینا چاہیے‘‘۔ لیکن یہ بھی بعید از قرائن ہے، کیونکہ حدیث میں شدید قسم کی وعید ہے اور اتنی سخت وعید کسی مستحب کام کے ترک پر نہیں دی جا سکتی۔ دوسری طرف جمہور اہل علم نے اپنے موقف کی تائید کےلیے ان صحابہ کرام کے آثار سے بھی مدد لی ہے، جو زیورات پر زکوٰۃ فرض نہیں سمجھتے۔ چنانچہ امام اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’میں نے ابو عبد اللہ احمد بن حنبل سے سنا وہ کہہ رہے تھے: پانچ صحابہ کرام سے یہ مروی ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے، اور وہ ہیں: انس، جابر، ابن عمر، عائشہ، اور اسماء رضی اللہ عنہم جمیعا‘‘ اس اثر کو ابن عبد الہادی نے ’’التنقيح‘‘[1]میں نقل کیا ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جابر بن عبد اللہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے، اور یہی موقف اسماء بنت ابی بکر صدیق کا ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہی بات منقول ہے، اور ان دونوں سے صحیح ثابت بھی ہے‘‘[2] مؤطا امام مالک میں عبد الرحمن بن قاسم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ
[1] (2/1421) [2] المحلى بالآثار (4/ 185)