کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 118
چیزوں میں شامل کیا جنہیں انسان اپنی ذاتی ضروریات کےلیے استعمال کرتا ہے، اور اس قسم کی چیزوں پر بالاجماع زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، چنانچہ اس بنا پر دیگر اہل علم نے یہ کہہ دیا کہ زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ زیورات پر زکوٰۃ واجب ہونے کے قائلین میں : احناف، احمد[ایک روایت کے مطابق] ، ابن منذر، خطابی، ابن حزم اور صنعانی ، جبکہ معاصر علمائے کرام میں ابن باز، ابن عثیمین ، اور دائمی فتوی کمیٹی نے بھی اسی کے مطابق فتوی صادر کیا ہے۔ ان کے ہاں زیورات پر زکوٰۃ واجب ہونے کےلیے سب سےقوی ترین دو چیزیں ہیں: (1)ایسی تمام احادیث اور نصوص جن میں سونے اور چاندی کی زکوٰۃ دینے کا حکم عام پایا جاتا ہے، کہ ان میں کسی بھی قسم کے سونے اور چاندی کو استثنا نہیں دیا گیا، مثال کے طور پر حدیث ہے: ’’چاندی میں چالیسواں حصہ ہے‘‘ اور اسی طرح حدیث ہے کہ:’’پانچ اوقیہ [200 درہم]سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے‘‘ امام ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ :’’چاندی میں چالیسواں حصہ ہے‘‘ اور اسی طرح : (پانچ اوقیہ [200 درہم]سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے‘‘تو جب زیورات بھی چاندی ہیں تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی، کیونکہ چاندی کے زیورات دونوںصحیح احادیث کے زمرے میں آتے ہیں‘‘۔ جبکہ سونے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ :’’کوئی بھی سونے کا مالک شخص اپنے سونے کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کےلیے آگ کی پلیٹیں بنا کر ان سے داغا جائے گا)‘‘ چنانچہ ان حدیث کی رو سے سونے پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوگی، لہٰذا سونے یا چاندی کی کسی بھی صورت کو بغیر نص یا اجماع کے زکوٰۃ سے مستثنی نہیں کیا جا سکتا‘‘[1]
[1] المحلى بالآثار (4/191)