کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 117
نہیں ملتا، چنانچہ ذاتی استعمال کے علاوہ کوئی بھی صورت ہو تو اسے اصل پر قائم رکھا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص زیور بناتا ہی اسی لیے ہےکہ زکوٰۃ ادا نہ کرنی پڑے تو اسے بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی‘‘[1] اسی طرح ’’کشف القناع‘‘میں ہے :’’مرد یا عورت کےلیے شرعی طور پر جائز سونے یا چاندی کے زیور میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، چاہے اس زیور کو ذاتی استعمال کےلیےتیار کیا جائے یا عاریۃً دینےکےلیے ، اسی طرح اگرزیور بنا کر ذاتی استعمال میں نہ لائیں یا عاریۃً دینے کا موقع ہی نہ بنے تب بھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی‘‘[2] سوم: اہل علم کا’’سونے یا چاندی کے ذاتی استعمال کےلیے تیار شدہ جائز زیور‘‘ کی زکوٰۃ کے بارے میں وسیع اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ :ایسی کوئی صحیح صریح نص موجود نہیں ہے جس میں زکوٰۃ کے وجوب یا نفی کا ذکر ہو، چنانچہ جتنی بھی احادیث اس بارے میں موجود ہیں یا تو ان کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں اختلاف ہے، یا پھر ان کے سمجھنے میں اختلاف ہے۔ اسی طرح اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ:کچھ اہل علم نے زیور جس چیز سے بنائے گئے ہیں اس چیز کا اعتبار کرتے ہوئے کہا ہے کہ : چونکہ یہ زیورات ایسی معدنیات سے بنے ہیں جنہیں لوگ آپس کے لین دین کےلیے استعمال کرتے ہیں، اور اس معدنیات میں بالاجماع زکوٰۃ بھی واجب ہوتی ہے، اس لیے زیورات میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، چنانچہ انہوں نے ڈھلائی کیے ہوئے سونے چاندی کے زیورات اور سکوں پر زکوٰۃ واجب قرار دی۔ جبکہ دیگر اہل علم نے اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ یہ زیورات سنار کی محنت اور ڈیزائننگ کی وجہ سے سونے چاندی کے سکوں سے مشابہت نہیں رکھتے، چنانچہ انہیں گھریلو سامان ، کپڑے، اور دیگر ایسی
[1] المغنی (4/221) [2] (2/234)