کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 110
آپ نے فرمایا نگاہیں نیچی رکھنا ۔(یعنی غیر محرم عورتوںو حرام چیزوں پر نظر نہ ڈالنا )، ایذا رسانی سے باز رہنا ۔(یعنی راستہ تنگ کرنے یا کسی اور طرح سے گزرنے والوں کو ایذاء نہ پہنچانا)، سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عام سڑک سےفائدہ اٹھاسکتاہے لیکن دوسروں کے لیے ضرراور نقصان کا باعث نہ بنے۔ نقصان اور ضامن کے تعین لئے متعین کردہ چند فقہی قواعد: قاعدہ نمبر1: المباشر ضامن وان لم یکن متعدیا یہ قاعدہ فقھاء کے نزدیک متفق علیہ قاعدہ ہے۔مجلۃ الأحکام العدليۃ میں یہ قاعدہ "المباشر ضامن وان لم یتعمد" یعنی نقصان کرنے والا ضامن ہے اگرچہ اس نے وہ نقصان جان بوجھ کر نہ بھی کیاہو ۔ کے الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ اور یہاںتعمد سے مراد زیادتی لی جائے گی کیونکہ مالی نقصان ہر حالت میں ادا کرنا ہوتا ہے چاہے وہ قصداًہو یا بلا قصد۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قصداً نقصان کی صورت میںکرنے والا گناہ کا مستحق بھی ہوگا۔ اسی لیے چھوٹے بچے اور پاگل ،دیوانے کے ہاتھوں ہونے والے نقصان پر ان پر گناہ نہیں لیکن پھر بھی ان کےسرپرست سے نقصان کا معاوضہ لیا جاتا ہے کیونکہ اسلام کسی بھی نقصان کو نظر انداز نہیں کرتا۔[1] اسی طرح گاڑی سے ٹکر مارنے والا ہر قسم کے نقصان کا ضامن ہوگا چاہے وہ نقصان قصداً ًہو یا بلا قصد بس فرق صرف اتنا ہے کہ قصد کی صورت میں وہ گناہ گار ہو گا۔ اور بلا قصد والے پر صرف نقصان کا ازالہ ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إن اللہ تجاوز لأمتي الخطأ والنسيان، وما استکرھوا عليہ‘‘[2] ’’ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی (کروائے گئے کام) معاف کر
[1] النھایۃ فی غریب الحدیث ،3/136 [2] سنن ابن ماجہ ،2044، البیھقی ، 7/356