کتاب: البیان شمارہ 14-15 - صفحہ 105
ان کے پاس مال نہیں ہے تو حاکم کو چاہیے کہ ان کو قید کردے اور اگر ان کے پاس مال ہے تو اس میں سے کتنا لینا چاہیے اس بارہ میں شافعی مذہب میں دو رائے ہیں۔ قدیم مذہب میں: ان سے زکاۃ اور ان کے مال کا نصف سزا کے طور پرلیا جائے گا۔ دلیل کے طور پر وہ بھز بن حکیم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو ہم لازما اس سے لیں گے اور اسکا نصف مال بھی‘‘۔ [1] جدید مذہب میں: ان سے صرف زکاۃ لی جائے گی اور اسکے علاوہ کچھ نہیں لیا جائے گا۔[2] ابن قدامہ الحنبلی فرماتے ہیں کہ سزا قید، ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ ہونی چاہیے کیونکہ شریعت میں کوئی مالی سزا نہیں۔ [3] ان تمام اصحاب کے دلائل درجِ ذیل ہیں۔ 1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: مال میں سوائے زکوٰۃ کے کوئی اور حق نہیں۔[4] 2مالی سزا ابتدائے اسلام میں جائز تھی پھر اللہ تعالی نے اس کو منسوخ فرما دیا۔ 3 مذاہب اربعہ میں سے بعض فقہاء کا مذہب۔ [5]
[1] ابوداؤد:1575، مسند احمد 4/2 [2] المجموع5/298، البیان للامام العمراني3/137 [3] المغنی لابن قدامۃ :12/526 [4] ابن ماجہ 1789،ابن حجر اور امام نووی وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، فیض القدیر5:374 [5] فتح القدیر 5/113، تبصرۃ الحکام لابن فرحون المالکی 2/6221، حاشیۃ الشبراملسی علی نھایۃ المحتاج 8/22، کشاف القناع 6/159، المدخل الفقھي العام لمصطفی الزرقاء2/627، التشریع الجنائی الاسلامی لعبد القادر العودۃ 1/705