کتاب: البیان شمارہ 13 - صفحہ 97
تو مجھے اپنے پاس سے بہترین وارث عطا کر۔ سیدنازکریا علیہ السلام کی اس دعا کا محور نیک اولاد تھی جو ان کے لیے اور آنے والے دور کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ ہو۔ زکریا علیہ السلام کی ایک اور دعا اس ضمن میں قرآن میں موجود ہے۔ [ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَآءِ ][اٰل عمران:38] ترجمہ: ’’ اے اللہ اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر دے۔ بےشک تو دعاؤں کو سننے والاہے‘‘ اولاد کے مزاج کی تشکیل اور سیرت و کردار کا انحصار بچپن پر ہوتا ہے کیوں کہ ان واقعات کی حیثیت ’’النقش علی الحجر‘‘ (پتھرکی لکیر)جیسی ہوتی ہے ۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں چھ ماہ کا بچہ جو دیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش اور اس کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ جدید تحقیقات نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا ہے کہ دوران حمل میں کیے گئے والدین کے خصوصاً ماں کے کیے ہوئے عمل اخلاقیات ، ایمانیات کے اثرات بچوں پر رونما ہوتے ہیں اور ان کے اندر جذب ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ‘‘[1] (تم میں سے ہرایک ذمہ دارہےاوراس سےاس کی ذمہ داری کی بابت پوچھاجائےگا)کا بنیادی اصول طے کر کے ہمیں اولاد کی تربیت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ہم مختصر طور پر ان مرحلوں کی جانب آتے ہیں جو والدین تربیت اولاد میں طے کرتے ہیں اور قرآن و حدیث سے صحیح طور پر ان مراحل کے لئے راہ نمائی لیتے ہیں ۔ پہلا مرحلہ: ولادت سے قبل دوسرا مرحلہ: ولادت سے 3سال کی عمر تک تیسرا مرحلہ: چار سال سے دس سال کی عمر تک
[1] مسند احمد:4495